بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا خلع لینا گناہ کا کام ہے؟


سوال

میری بیٹی کی شادی کو تقریباً دوسال ہونے والے ہیں، لیکن ان کا شوہر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں اٹھارہا، وہ خود نشہ کا عادی ہے، اور اس بات کا بارہا اعتراف بھی کرچکا ہے کہ ’’ میں اپنی بیوی کا کوئی خرچہ نہیں اٹھاؤں گا،‘‘ اسی طرح میری ایک نواسی بھی ہے، ان کی پیدائش سے قبل جب صرف حمل ٹھہرا تھا، تو میری بیٹی کے شوہر نے انہیں یہ بھی کہاتھا کہ ’’ مجھے بچہ نہیں چاہیے، یہ حمل گرادو‘‘ ، لیکن میری بیٹی نے ایسا نہیں کیا، اس صورتِ حال میں ہم انہیں دو مرتبہ خلع کا نوٹس بھی بھیج چکے ہیں کہ میری بیٹی کو طلاق دے دو، یا پھر خلع کےذریعے ہی اس کو آزاد کردو، لیکن وہ خلع کے پیپر پر دستخظ نہیں کرتا، اور ہمیں یہ کہتاہے کہ خلع لینا گناہ کا کام ہے۔

اب میرا  سوال یہ ہے کہ آیا واقعی خلع لینا شرعاً گناہ کا کام ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جب میاں بیوی کےدرمیان اختلاف اس حد تک بڑھ جائے کہ صلح کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، اور میاں بیوی کا ایک ساتھ رہنا ناگزیر ہوجائے، ظلم وزیادتی بھی شوہر کی طرف سے پائی جارہی ہو،اور شوہر بیوی کو آزاد کرنے پر بھی رضامند نہ ہو، تو اس صورت میں بیوی کو اپنے شوہر سےکچھ مال کے عوض خلع لینے کا شرعاً حق حاصل ہوتاہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے بیان کے مطابق اگر واقعۃً سائلہ کی بیٹی کا شوہر اس طرح ہے،کہ کسی بھی طرح کی ذمہ داری نہیں اٹھاتاہے، نہ بیوی اور بچی کے نان ونفقہ ادا کرتاہے، تو اس صورت میں سائلہ کی بیٹی کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ کچھ مال دےکر یا اگر شوہر نے مہر ادا نہیں کیا ہو تو مہر کو معاف کر کےاس کے  عوض اپنے شوہر سے خلع طلب کرسکتی ہے، اور شرعاً اس طرح ان حالات میں خلع لینا جائز ہے ، گناہ کا کام نہیں ہے، تاہم خلع کے جائز ہونےکےلیے ضروری ہے کہ شوہر بھی خلع دینے پر راضی ہو، اس کی اجازت کے بغیر یک طرفہ خلع شرعاً معتبر نہیں ۔

تاہم واضح رہے کہ  خلع میں اگر زیادتی شوہر کی طرف سے پائی جارہی ہے ، بیوی بے قصور ہو تو شوہر کا بجائے طلاق کے بیوی کوخلع پر مجبور کرنا  ،   بدلِ خلع(مہر کی واپسی )کا مطالبہ کرنا ازروئے شریعت درست نہیں ہے، البتہ اگر قصور بیوی کا ہو،یا دونوں کا ہو، طلاق یا خلع کا مطالبہ بھی بیوی کی طرف سے پایا جارہا ہو ، تو اس صورت میں اگر شوہر  طلاق دینے کے لیےبدلِ خلع کا مطالبہ کرے تو شرعاً یہ جائز ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ."﴿البقرة: ٢٢٩﴾

ترجمہ:’’وہ طلاق دومرتبہ ( کی) ہے پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ چھوڑدینا خوش عنوانی کے ساتھ اور تمہارے لیے یہ بات حلال نہیں کہ( چھوڑنے کے وقت) کچھ بھی لو ( گو) اس میں سے ( سہی) جو تم نے ان کو ( مہر میں ) دیا تھا۔ مگر یہ کہ میاں بیوی دونوں کو احتمال ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ضابطوں کو قائم نہ کرسکیں گے۔ سو اگر تم لوگوں کو یہ احتما ل ہو کہ دونوں ضوابط خداوندی کو قائم نہ کرسکیں گے  تو کوئی گناہ نہ ہوگا  اس ( مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے یہ خدائی ضابطے ہیں سو تم ان سے باہر مت نکلنا اورجو شخص خدائی ضابطوں سے بالکل باہر نکل جائے( ایسے ہی لوگ اپنا نقصان کرنے والے ہیں)۔‘‘

(از: بیان القرآن، سورۃ البقرۃ: ۲۲۹)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولا بأس به عند الحاجة للشقاق بعدم الوفاق بما یصلح للمھر."

(فتاویٰ شامی،کتاب النکاح،باب الخلع،ج:3،ص:441،ط: ایچ ایم سعید )

وفيه ايضا:

"وکرہ تحریما أخذ شیء إن نشز وإن نشزت لا ۔۔۔۔ والحق أن الأخذ إذا کان النشوز منه حرام لقوله تعالیٰ -فلا تأخذوا منه شیئاـ إلا أنه إن أخذ ملکه بسبب خبیث".

(ردالمحتار،کتا ب النکاح،باب الخلع،ج:3،ص:445،ط: ایچ ایم سعید)

وفیه ایضاً:

"ولو منه نشوز ایضاً۔۔۔۔لأن قوله تعالیٰ۔’’فلاجناح علیھما فیما افتدت به‘‘۔یدل علی الإباحة اذاکان النشوز من الجانبین بعبارۃ النص."

(کتاب النکاح،باب الخلع،ج:3،ص:445،ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100883

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں