بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کے پورے پروسس کے دوران شوہر کی رضامندی نہ ہونے کی صورت میں خلع کا حکم


سوال

 میری بیوی نے فیملی کورٹ سے میرے خلاف خلع کی ڈگری حاصل کرلی ہے جس پر ایک طلاق درج ہے اور تین مہینے بعد یونین کونسل سے طلاق موثر گی سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرلیا ہے، نادرا دفتر سے شناختی کارڈ پر اپنا سٹیٹس شادی شدہ سے بیوہ درج کروا لیا ہے جب کہ مجھے کوئی نوٹس موصول نہ ہوا تھا، نہ عدالت کی طرف سے اور نہ یونین کونسل کی طرف سے۔لیکن مجھے اس تمام پراسس کا علم تھا، اس کے باوجود میں نے کسی جگہ پر حاضر ہوکر اس پراسس پر اپنی رضامندی ظاہر نہیں کی تھی، پھر میں نے دوسری عورت سے شادی کرلی تھی۔ اب میری پہلی بیوی دوبارہ مجھ سے نکاح کرنا چاہتی ہے، کیا ہم ریمیرج کرسکتے ہیں یا نہیں؟ پہلی بیوی سے دو بچے بھی ہیں۔ اگر اب ہم دونوں باہم رضامندی سے دوبارہ شادی کرنا چاہیں تو کیا یہ حلالہ کے بغیر ممکن ہے یا نہیں؟ اس خلع کو پانچ مہینے گزر چکے ہیں۔

جواب

واضح رہےکہ خلع ایک مالی معاملہ کی طرح ہے ،جس طرح دیگر مالی معاملات میں جانبین کی رضامندی شرعا ضروری ہوتی ہے،اسی طرح خلع معتبر اور درست ہونے کے لیے بھی میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہے،کوئی ایک فریق راضی ہو ،اور دوسرا راضی نہ ہو تو ایسی صورت میں  خلع شرعا معتبر نہیں ہوگا،خواہ وہ عدالتی خلع کا فیصلہ کیوں نہ ہو۔

صورتِ مسئولہ   میں  سائل کی بیوی  نے اپنے شوہر کے خلاف عدالت میں اگر واقعۃً خلع کی بنیاد پر مقدمہ دائر کیا تھا، اس کےبعد سائل کے بیان کے مطابق سائل کو عدالت سے کوئی نوٹس بھی موصول نہیں ہوا اور پھر عدالت نے شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر یک طرفہ طور پرسائل کی بیوی کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کردی،اور تاحال سائل نے خلع کے اس عدالتی فیصلہ پر زبانی یا تحریری طور پر کسی قسم کی کوئی اجازت اور رضامندی ظاہر نہیں کی ،تو ایسی صورت میں مذکورہ عدالتی خلع شرعا غیر معتبر ہے،نکاح بدستور قائم ہے،بیوی کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے،اور اگر دونوں دوبارہ ساتھ رہنے پر رضامند ہوں تو ساتھ رہ سکتے ہیں،دوبارہ نکاح کرنے  کی  یا تحلیل کے لیے کسی اور سے نکاح  کی ضرورت نہیں ہے۔

امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ اپنی کتاب’’ أحكام القر اٰن‘‘ میں لکھتے ہیں:

"لو كان الخلع إلى السلطان شاء الزوجان أو أبيا إذا علم أنهما لا يقيمان حدود الله لم يسئلهما النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك ولا خاطب الزوج بقوله اخلعها بل كان يخلعها منه ويرد عليه حديقته وإن أبيا أو واحد منهما كما لما كانت فرقة المتلاعنين إلى الحاكم لم يقل للملاعن خل سبيلها بل فرق بينهما كما روى سهل بن سعد أن النبي صلى الله عليه وسلم فرق بين المتلاعنين."

(سورۃ البقرۃ ،باب الخلع،ج:2،ص:95،ط:دار احیاء التراث العربی)

ترجمہ:

’’اگر یہ اختیار سلطان کو ہوتا کہ وہ جب دیکھے کہ زوجین حدود اللہ کو قائم نہیں  کریں گے تو خلع کردے ،خواہ یہ زوجین کی خواہش ہو یا نہ ہو ،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے اس کا سوال نہ فرماتے اور نہ شوہر سے یہ کہتےکہ تم ان سے خلع کردو ،بلکہ خود خلع کرکے عورت کو چھڑادیتے ،اور شوہر پر اس کا باغ لوٹادیتے ،خواہ وہ دونوں انکار کرتے یا ان میں سے کوئی ایک انکار کرتا ،جیسے کہ لعان میں زوجین کی تفریق کا اختیار حاکم کو ہوتاہے ،تو وہ ملاعن (شوہر) سے یہ نہیں کہتا کہ اپنی بیوی کو چھوڑ دو ،بلکہ خود تفریق کردیتا ہے،جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والےمیاں بیوی کے درمیان (خود) تفریق فرمادی تھی.‘‘

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول بخلاف النوع الأول فإنه إذا قال: خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع الطلاق عليها، سواء قبلت أو لم تقبل؛ لأن ذلك طلاق بغير عوض فلا يفتقر إلى القبول."

(کتاب الطلاق،فصل فی شرائط رکن الطلاق،ج:3،ص:145،ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وشرطه كالطلاق) وهو أهلية الزوج وكون المرأة محلا للطلاق منجزا، أو معلقا على الملك. وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق،باب الخلع،ج:3،ص:441،ط:سعید)

تبیین الحقائق میں ہے:

"ولا بد من قبولها؛ لأنه عقد معاوضة أو تعليق بشرط فلا تنعقد المعاوضة بدون القبول، ولأن المعلق ينزل بدون الشرط إذ لا ولاية لأحدهما في إلزام صاحبه بدون رضاه والطلاق بائن؛ لأنها ما التزمت المال إلا لتسلم لها نفسها وذلك بالبينونة."

(کتاب الطلاق،باب الخلع،ج:2،ص:271،ط:دار الکتاب الاسلامی)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولأن النكاح عقد محتمل للفسخ حتى يفسخ بخيار عدم الكفاءة، وخيار العتق، وخيار البلوغ عندكم فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضا، وذلك بالخلع، واعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع والشراء في جواز فسخها بالتراضي."

(کتاب الطلاق ،باب الخلع،ج:6 ،ص:171،ط:دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں