بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کا طریقہ اور احکامات


سوال

۱۔خلع کا شریعت میں کیا حکم ہے ؟

۲۔خلع کی  عدت کی مدت کتنی ہے ؟

۳۔خلع کی عدت شوہر کے گھر گزار نے کا کیا حکم ہے ؟

۴۔خلع کے بعد بغیر کسی اور کے نکاح میں آئے سابقہ شوہر سے نکاح ہوسکتاہے ؟

۵۔عدت گزارنے کا طریقہ  کیا ہے؟ (کیا کیا کرناجائز ہے اور کیا کرنا منع ہے )

جواب

1: - اگر زوجین میں نباہ  کی کوئی شکل نہ رہے اور شوہر بلاعوض طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو ، تو  شرعًا عورت کے لیے یہ راستہ تجویز کیا گیا ہے کہ وہ خلع کی پیش کش کرکے اپنے کو آزاد کرالے ۔ اِسی بات کو قرآنِ کریم کی اِس آیت میں اِرشاد فرمایا گیا : 

{وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [البقرة: 229]

ترجمہ: ”اور تم کو یہ روا نہیں ہے کہ عورتوں کو دیا ہوا کچھ بھی مال اُن سے واپس لو ، مگر یہ کہ جب میاں بیوی اِس بات سے ڈریں کہ اللہ کے اَحکام پر قائم نہ رہ سکیں گے ۔ پس اگر تم لوگ اِس بات سے ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہیں گے تو اُن دونوں پر کچھ گناہ نہیں ہے اِس میں کہ عورت بدلہ دے کر چھوٹ جائے ، یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، سو اُن سے آگے نہ بڑھو ، اور جو کوئی اللہ کی حدود سے آگے بڑھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں “۔ 

نیز  روایات میں وارد ہے کہ:

"حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں” ثابت“ کے اخلاق اور اُن کی دین داری کے بارے میں تو کوئی عیب نہیں لگاتی ، لیکن مجھے اُن کی ناقدری کا خطرہ ہے ( اِس لیے میں اُن سے علیحدگی چاہتی ہوں ) تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  : ’’ اُنہوں نے جو  باغ تمہیں مہر میں دیا ہے وہ تم اُنہیں لوٹادوگی ؟ ‘‘ تو ان کی اہلیہ نے اِس پر رضامندی ظاہر کی ، تو پیغمبر علیہ السلام نے حضرت ثابت کو بلاکر فرمایا : ’’ اپنا باغ واپس لے لو اوراِنہیں طلاق دے دو ‘‘ ۔

( ابوداؤد شریف / باب الخلع ۱ ؍ ۳۰۳ ، تفسیر ابن کثیر مکمل ۱۸۳-۱۸۵ ریاض ) 

نیز واضح رہے کہ شرعاً خلع صحیح ہونے کے لیے شوہر کا اسے قبول کرنا ضروری ہے اور  جب شوہر خلع  دینے پر راضی ہوجائے اور خلع   دے دے تو اس صورت میں عورت پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے ۔

2:- خلع کی عدت : جس عورت کو ایام آتے ہوں،  اس کے لیے   عدت کی مدت تین ماہواریاں ہوں گی، اگرچہ تین مہینے پورے ہونے سے پہلے مکمل ہوجائےاور جس عورت کی ماہواری بند ہوجائے، اُس کی عدتِ   مہینوں کے اعتبار سے تین ماہ میں پوری ہوگی، البتہ اگرعورت حاملہ ہوتو عدت بچے کی پیدائش پر ختم ہوگی۔

3:-  خلع کی عدت شوہر کے گھر  میں گزارنا ضروری ہے ،بغیر سخت شرعی مجبوری کے اس گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

4:- خلع سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے،خلع کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ  نکاح کرنے کی اجازت ہے ،اس کے لیے  کسی اور کے نکاح میں آنا اور اس کے ساتھ ہم بستری  کرنا ضروری نہیں  ، البتہ  نئے مہر کے ساتھ، دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کی تجدید کرنا ضروری ہے، اور   دوبارہ  نکاح ہونے کی صورت میں شوہر کو آئندہ دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

یہ حکم اس وقت ہے جب کہ خلع سے پہلے شوہر نے دو طلاقیں نہ دی ہوں، بصورتِ دیگر خلع کے نتیجے میں مجموعی طور پر تین طلاقیں متصور ہوکر بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔

5:- خلع کی عدت  میں عورت کے لیے کسی شدید مجبوری کے بغیر گھر سے نکلنے، سفر کرنے یا خوشی غمی کے موقع پر کسی رشتہ دار کے گھر جانا جائز نہیں ہے، ، نیز زیب و زینت اختیار کرنا، خوش بو  لگانا،سر میں تیل لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا،  نکاح یا منگنی کرنا وغیرہ یہ سب امور  ناجائز ہیں۔

البتہ اگر سر درد ہو یا سر میں جوئیں پڑگئی ہوں تو علاج کے طور پر سر میں تیل لگانے کی اجازت ہے۔نیز دورانِ عدت گھر  میں کسی مخصوص کمرے میں بیٹھنا ضروری نہیں، معتدہ پورے گھر میں گھوم پھر سکتی ہے اور گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے کھلے آسمان تلے بھی جاسکتی ہے،اور بوقتِ ضرورت علاج معالجے کے لیے ڈاکٹر کے پاس بھی جاسکتی ہے، گھریلو کام کاج بھی کرسکتی ہے۔

نیز عدت کے دوران عورت کے لیے کسی اور جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے،  اور کسی مرد کو ایسی عورت کو نکاح کا صراحتاً  پیغام دینا بھی جائز نہیں ہے۔

وفي بدائع الصنائع :

"وأما ركنه فهو الايجاب والقبول لانه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول".

(4/ 430، ط:رشيدية)

وفي الدر المختار:

"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه) ومنه الفرقة بتقبيل ابن الزوج نهر (بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل).

(3/ 504، ط: سعيد)

وفي الهداية في شرح بداية المبتدي :

"وعلى المعتدة أن تعتد في المنزل الذي يضاف إليها بالسكنى حال وقوع الفرقة والموت "لقوله تعالى: {لا تخرجوهن من بيوتهن} والبيت المضاف إليها هو البيت الذي تسكنه،  ولهذا لو زارت أهلها وطلقها زوجها كان عليها أن تعود إلى منزلها فتعتد فيه وقال عليه الصلاة والسلام للتي قتل زوجها " اسكني في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله ".

(2/ 279، ط:دار الكتب العلمية)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

 (رد المحتار3/ 536، ط:سعيد)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"قلت: قدمنا الفرق هناك، وهو أن الخلع بائن وهو لايلحق مثله، والطلاق بمال صريح فيلحق الخلع".

(رد المحتار3 / 440، ط:سعيد)

وفي البناية شرح الهداية:

"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى."

(٥/٥٠٩)

وفي الفتاوى الهندية:

"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها يف العدة وبعد انقضائها."

(ج:۱، ص:۴۷۲ ط: ماجدیة)

وفي الفتاوى الهندية :

"عَلَى الْمَبْتُوتَةِ وَالْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا إذَا كَانَتْ بَالِغَةً مُسْلِمَةً الْحِدَادُ فِي عِدَّتِهَا كَذَا فِي الْكَافِي .وَالْحِدَادُ الِاجْتِنَابُ عَنْ الطِّيبِ وَالدُّهْنِ وَالْكُحْلِ وَالْحِنَّاءِ وَالْخِضَابِ ... وَإِنَّمَا يَلْزَمُهَا الِاجْتِنَابُ فِي حَالَةِ الِاخْتِيَارِ أَمَّا فِي حَالَةِ الِاضْطِرَارِ فَلَا بَأْسَ بِهَا إنْ اشْتَكَتْ رَأْسَهَا أَوْ عَيْنَهَا فَصَبَّتْ عَلَيْهَا الدُّهْنَ أَوْ اكْتَحَلَتْ لِأَجْلِ الْمُعَالَجَةِ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَلَكِنْ لَا تَقْصِدُ بِهِ الزِّينَةَخ كَذَا فِي الْمُحِيطِ".

 (11 / 252، ط:ماجدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200996

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں