بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کی شرائط


سوال

عرض یہ ہے کہ میری بیوی  میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور ہر ممکن کوشش کے باوجود  اس نے مجھ سے خلع لینے کیلے درخواست دائر کی ہے ، میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنی اہلیہ کو جتنے تحائف سونےGOLDاور چاندی کے زیوات کی شکل میں دئے تھے، اور جو حق مہر کی رقم میں نے ادا کی ہے تو کیا ان سب چیزوں کو دوبارہ خلع کے عوض میں واپس لینے کا حق رکھتا ہوں یا نہیں ؟ اور  میرے لئے ایسا کرنا شریعت میں  جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع   کےمعتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے، شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  یک طرفہ  طور پر خلع  معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا،جہاں تک مہر اور دیگر سونے چاندی کے تحائف  کاسوال ہے تو اگر نافرمانی اورزیادتی بیوی کی طرف سے ہو تو شوہر خلع کے عوض جو  کچھ طے کرے  وہ لے سکتا ہے ،البتہ شوہر کے لئے  مہر کے علاوہ تحائف وغیرہ کا مطالبہ کرنا مکروہ ہے   اور اگر شوہر کی طرف سے زیادتی ہو تو شوہر کا خلع کے عوض مہر لینا بھی مکروہ ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر زیادتی بیوی کی طرف سے ہے تو سائل کے لئے  خلع کے عوض میں مہر لینا جائز ہے ،البتہ  سائل نے جو دیگر سونے اور چاندی کے زیورات  تحائف کی صورت میں دیے تھے ان کا مطالبہ مکروہ ہے،تاہم تحائف جو دیئےوہ لےلے گا تو جائز ہے ۔

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع"

(باب ا لخلع ج3،ص441،ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.

وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان

( الْباب الثامن في الخلْع وما في حُكْمه ،الْفصل الأول في شرائِط الْخلْع وحُكمهِ، ج،1 ،ص،488 ، ط: دار الفكر)

الدر المختار مع حاشیتہ ردالمحتار  میں ہے:

"(وكره) تحريمًا (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضًا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح  وصحح الشمني كراهة الزيادة وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق.
(قوله: وكره تحريما أخذ شيء) أي قليلًا أو كثيرًا  والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعًا؛ لقوله تعالى: {فلا تأخذوا منه شيئًا} النساء 20 إلا أنه إن أخذ ملكه بسبب خبيث وتمامه في الفتح لكن نقل في البحر عن الدر المنثور للسيوطي أخرج ابن جرير عن ابن زيد في الآية قال ثم رخص بعده فقال: { فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به } [البقرة 229] قال: فنسخت هذه تلك ا هـ  وهو يقتضي حل الأخذ مطلقا إذا رضيت ا هـ أي سواء كان النشوز منه أو منها أو منهما لكن فيه أنه ذكر في البحر أولا عن الفتح أن الآية الأولى فيما إذا كان النشوز منه فقط والثانية فيما إذا لم يكن منه فلا تعارض بينهما وأنهما لو تعارضتا فحرمة الأخذ بلا حق ثابت بالإجماع وبقوله تعالى { ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا } البقرة 231 وإمساكها لا لرغبة بل إضرارا لأخذ ما لها في مقابلة خلاصها منه مخالف للدليل القطعي فافهم."

(الدر المختار شرح تنویر الابصار،باب الخلع،ص۔235،ط۔دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں