خلع کے کیس میں عدت کی مدت کتنی ہوتی ہے؟
واضح رہے کہ شرعی خلع کے لیے دونوں میاں بیوی کی رضامندی ضروری ہے، اگر عورت شوہر کی رضامندی کے بغیر یک طرفہ خلع کی ڈگری حاصل کرلے، اور شوہر نے اس خلع پر رضامندی کا اظہار ابھی تک نہیں کیا ہو ،تو ایسا خلع شرعاًمعتبر نہیں ہوتا؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر خلع دینے پر راضی تھا، تو فیصلہ کے ساتھ ہی خاتون کی عدت شروع ہوچکی ہے، اور مکمل تین ماہواریاں (اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہوتو بچہ کی پیدائش تک) عدت گزارنا ان پر لازم ہوگا۔
البتہ اگر شوہر نے خلع تسلیم نہیں کیاتھا، تو اس صورت میں مذکورہ عدالتی خلع شرعاً نافذ ہی نہیں ہوا، جس کی وجہ سے خاتون بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں ہے، اور اس پر عدت لازم نہیں۔
أحكام القرآن للجصاص ميں ہے:
"فلذالك قال أصحابنا : إنهما لايجوز خلعهما إلّا برضي الزوجين،فقال أصحابنا : ليس للحكمين أن يفرقا إلّا برضي الزوجين،لأن الحكم لايملك ذالك فكيف يملكه الحكمان؟."
(باب الحكمين كيف يعملان ،ج: 2 ،ص: 240، دار الكتب العلمية بيروت)
ہدایہ میں ہے:
"وإذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء ........ والفرقة إذا كانت بغير طلاق فهي في معنى الطلاق لأن العدة وجبت للتعرف عن براءة الرحم في الفرقة الطارئة على النكاح وهذا يتحقق فيها والأقراء الحيض عندنا."
(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج: 2، ص: 274، ط: دار احياء التراث العربي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405101772
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن