بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کی عدت کی مدت کا بیان


سوال

خلع کا پوچھنا ہے کہ خلع  کی عدت کتنے مہینے ہوتی  ہے؟

 

جواب

خلع بھی طلاقِ  بائن کے حکم میں ہے؛ اس  لیے جس عورت کو  ماہواری  آتی ہو  اس  کے لیے طلاق یا خلع  کی صورت میں  عدت  کی مدت تین  ماہواریاں ہوں  گی، چاہے تین ماہواریاں تین ماہ سے  پہلے ختم ہوجائیں یا تین ماہ سے زیادہ عرصہ لگ جائے، بہرحال عدت میں مہینوں کا اعتبار نہیں ہوگا، البتہ اگرعورت حاملہ ہوتو عدت بچے کی پیدائش پر ختم ہوگی۔جس عورت کی ماہواری بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر بند ہوجائے، اُس کی عدتِ طلاق ia خلع  مہینوں کے اعتبار سے تین ماہ میں پوری ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 504):

"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابيةً تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعياً (أو فسخ بجميع أسبابه) ... (بعد الدخول حقيقة، أو حكماً) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي: "إن وطئت" راجع للجميع، (ثلاث حيض كوامل)؛ لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 507):

’’(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعًا (أو كبر). بأن بلغت سن الإياس (أو بلغت بالسن) وخرج بقوله: (ولم تحض) الشابة الممتدة بالطهر بأن حاضت ثم امتد طهرها، فتعتد بالحيض إلى أن تبلغ سن الإياس جوهرة وغيرها.‘‘

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144211201392

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں