بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کی عدت کب سے کب تک ہے؟


سوال

میری بیٹی کی شادی 28/10/2022میں ہوئی شادی کے بعد سے فوراًہی میرے داماد نےکہا کہ میں آپ سے تعلقات نہیں رکھنا چاہتا، ماں جی کی مرضی کی وجہ سے نکاح ہوا ہے میر ی مرضی نہیں ہے میں کسی اور کو پسندکرتا ہوں،  آپ چاہے رہے  یا نہ رہے پھر اس کے بعد  مارپیٹ کرکے گھر سے نکالا پھر ہم نے 26/2/2023کو خلع کے کیس دائر کردیا، پھر 16/3/2023کو کورٹ میں میاں بیوی دونوں کو بلاکر کورٹ میں بھی میرے داماد نے کہاکہ ان کی مرضی ہےچاہے میرے ساتھ رہے یانہ رہے،پھر 29/4/2023کو انہوں نے خلع کے پیپر جاری کیا۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ میری بیٹی کی عدت کب سے شروع ہوگی ؟29/4/2023 سے یا ابھی سے اور کتنے دن تک عدت رہے گی؟

جواب

واضح رہے کہ خلع ایک مالی معاملہ ہے جس طرح دیگر مالی معاملہ کے لیے عاقدین کی رضامندی شرط ہوتی ہے اسی طرح خلع کے معتبر اور درست ہونے کے لیے بھی میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرعاً ضروری ہے کوئی ایک فریق راضی ہو دوسرا راضی نہ ہو تو ایسا خلع شرعاً معتبر نہیں ہوتا خواہ وہ عدالتی خلع کا فیصلہ کیوں نہ ہو اور جس خلع میں زوجین کی رضامندی پائی گئی ہو ایسا خلع شرعاًمعتبر اور درست ہوتا ہے مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح اور درست ہےکہ سائلہ کی بیٹی کی طرف سے متعلقہ عدالت میں خلع کا مقدمہ دائر کرنے کے بعد شوہر نے عدالت میں حاضر ہوکر جج کے سامنے یہ کہاکہ ان کی مرضی ہے چاہے میرے ساتھ رہے یانہ رہے تو سائلہ کے داماد کے یہ الفاظ شرعاً خلع کی رضامندی پر دلالت کرتے ہیں لہذااس کے بعدعدالت نے خلع کی جو ڈگری جاری کی تو اس سے شرعاً خلع معتبر اور درست ہوگیابیوی اپنی عدت(پوری تین ماہواریاں اگرحمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک )گذارکر دوسری جگہ نکاح کرسکتا ہےبیوی کی عدت کی ابتداء اس دن سے ہوگی جس دن عدالت نے خلع کا فیصلہ سنایا۔

غمز عيون البصائرشرح الأشباه والنظائرمیں ہے:

"أن ‌الخلع معاوضة يشبه البيع."

(الفن الخامس من الأشباه والنظائر وهو فن الحيل وفيه فصول، الثامن في الخلع، ج:٤، ص:٢٣٥، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما ‌ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول."

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج؛٣، ص:٤٤١، ط:دار الفكر بيروت)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"(قال): وإذا اختلعت المرأة من زوجها فالخلع جائز، والخلع تطليقة بائنة عندنا."

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:٦، ص:١٧١، ط:دار المعرفة بيروت)

شرح مختصر الطحاوی میں ہے:

"قال والعدة واجبة من يوم الطلاق."

(كتاب الطلاق، باب العدد والاستبراء، ج:٥، ص:٢٤٨، ط:دارالبشائرالإسلامية)

النتف فی الفتاوی میں ہے:

"وعدة النّساء على عشْرين وجها أحدها الحيض وهي ثلاث حيض...والثّالث الصّغيرة الّتي لا تحيض وعدتها ايضا ثلاثة اشهر...والخامس عدّة الحامل فحتى تضع حملها."

(كتاب العدة، ج:3، ص:129، ط:مؤسسة الرسالة بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں