14 جنوری کو ہم نے آخری مرتبہ ازدواجی تعلقات قائم کیے تھے ،پھر اس کے بعد سے ہم الگ ہو گئے تھے، آج یکم مئی کو خلع ہوگئی ہے ، کیا عدت کا وقت ابھی بھی چار ماہ ہو گا؟
خلع کے صحیح ہونے کےلیے شوہر کی رضا مندی ضروری ہے ،اگر شوہر کی رضامندی کے ساتھ خلع ہو جائے ،تو اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوتی ، اور خلع کی عدت چارہ ماہ نہیں ہے، بلکہ خلع کی عدت بھی وہی ہے جو طلاقِ بائن کی ہوتی ہے، یعنی اگر عورت کو ماہ واری آتی ہو تو اس کی عدت تین ماہ واریاں ہو گی،اگر ماہ واری نہ آتی ہو، تو پھر اس کی عدت تین مہینے ہو گی ، اور اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہو گی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں جنوری میں آخری مرتبہ تعلقات قائم کرنے کے بعد اگر بغیر طلاق کے علیحدگی اختیار کی گئی تھی تو پھر عدت کی ابتداء خلع کے وقت سے ہوگی ، خلع سے پہلےجتنا عرصہ الگ رہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے :
"قلت: قدمنا الفرق هناك، وهو أن الخلع بائن."
(باب الخلع ، ج : 3 ، ص : 440 ، ط : سعيدكراچي)
وفيه أيضًا :
"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)ومنه الفرقة بتقبيل ابن الزوج نهر (بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة۔۔۔ما لم تكن حاملا، أو آيسة...(قوله: ما لم تكن حاملا) فإن كانت فعدتها الوضع بحر (قوله: أو آيسة) فإن كانت فعدتها ثلاثة أشهر بحر."
(كتاب الطلاق ، باب العدة ، ج : 3 ، ص : 504/05/06)
مبسوط میں ہے :
"ألا ترى أن الواقع بلفظ الخلع يكون بائنًا، وإن لم يذكر البدل بمقابلته."
(كتاب الطلاق ، باب الخلع ، ج : 6 ، ص : 175 ، ط : مطبعة السعادة)
فتح القدیر میں ہے :
"(وإذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء) لقوله تعالى {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء} [البقرة: 228]۔۔۔(قوله إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا) وليس رجعيا في بعض النسخ وشمل طلاق الخلع واللعان."
(كتاب الطلاق ، باب العدة ، ج : 4 ، ص :307 ، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101761
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن