بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کے مطالبے پر شوہر کا خلع نہ دینا


سوال

ایک لڑکی کا نکاح باپ  کی مرضی سے ہوا،اس نے ناچاہتے ہوئے قبول کیا اور نکاح فارم پرد ستخط بھی کردیے،اس کے بعد باقاعدہ طور پر دبئی کی ایک  مسجد میں ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح ہوا تھا،لڑکی والوں نے رخصتی کے لیے دو سال مانگے،لیکن ان دو سالوں میں لڑکی اور اس کے والدین  نے لڑکے کو اچھا نہ پایا تو انہوں نے لڑکے سے خلع کا  مطالبہ کیا، لڑکا راضی نہ ہوااور لڑکے نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں،اس پر لڑکی نے عدالت سے رجوع کیا،لڑکی پر احاطہ عدالت میں فائر کیے گئے،لڑکی کو اللہ نے بچالیا اور جب دوبارہ عدالت گئی تو لڑکے نے لڑکی کے والد کو اغواء کیا اور زبردستی مجبوراً لڑکی اس کے پاس چلی گئی اور اسی کے گھر میں ہے،ابھی تک ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا ہے،لیکن وہ کسی طور پر راضی نہیں ہے،لڑکا گن پوائنٹ پر سب کچھ کر رہا ہے،والدین جس جگہ بھی جاتے ہیں تو لڑکے نے ہر قانون اور ادارے کو خریدا ہوا ہے اور اس کو کہا گیا ہے کہ اگر وہ علیحدگی کا فیصلہ کرے گی تو سیدھا گولی مار دی جائے گی،لڑکی کا اس کے ساتھ رہنے کادل نہیں،وہ سرے سے رضامند نہیں ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا نکاح درست ہے؟اگر درست ہے تو اس نکاح کو ختم کرنے کی کیا صورت ہوگی؟جبکہ عدالت بھی خلع کا فیصلہ نہیں کر رہی ہے؟نکاح 2014ء میں ہوا اور اب یہ اغواء کا معاملہ  پچھلے ہفتہ 2021ء میں ہواہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب لڑکی نے نکاح فارم پر دستخط کردئے تھے اگرچہ والد  کے  کہنے پر ہی کیوں نہ کیے ہوں تو شرعا نکاح  منعقد ہوگیا تھا،اس کے بعد رخصتی سے قبل جب لڑکی اور اس کے والدین نے عدم ِ اطمینان کی وجہ سے  لڑکے سے خلع کا مطالبہ کیا تو لڑکے کو چاہیے تھاکہ خلع کو قبول کرلیتا تاکہ لڑکی عزت کے ساتھ کسی دوسری جگہ نکاح کرسکتی اور لڑکے کا بھی کسی دوسری جگہ رشتہ ہوجاتا،تاہم لڑکے کا احاطہ عدالت میں فائرنگ کرنا، لڑکی کے والد کواغواء  کرنا ناجائز اور حرام ہے۔

لڑکی اگر ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ہے تو خاندان کے ایسے معزز افراد کو درمیان میں ڈال کر جس کی بات لڑکا بھی مانتا ہو ،لڑکے کوطلاق/  خلع پر آمادہ کیا جاسکتاہے۔تاہماگر لڑکا طلاق/خلع پر رضامند نہ ہو، لیکن تمام حقوق  ادا کرنے پر تیار ہو  تو صرف نا پسندیدگی  کی بنا  پر  لڑکی کو عدالت سے نکاح فسخ(ختم )کروانے کا حق نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي)…… )بمحضر من الشهود صح)……"

(کتاب النکاح،3/ 9،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا بأس به عند الحاجة) للشقاق بعدم الوفاق (بما يصلح للمهر) بغير عكس كلي لصحة الخلع بدون العشرة وبما في يدها وبطن غنمها وجوز العيني انعكاسها

قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية."

(کتاب الطلاق،باب الخلع،3/ 441،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100739

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں