بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کے بعد سابقہ شوہر سے نکاح کا حکم


سوال

میری شادی فروری 2016 میں ہوئی اور خلع فروری 2018 میں ہوئی ہے، میری ایک بیٹی بھی ہے، دو سال سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں تھا، کیا اب یہ ممکن ہے کہ ہم دوبارہ زندگی گزار سکتے ہیں؟ اس خلع سے پہلے میں نے کبھی کوئی طلاق نہیں دی اور نہ ہی خلع کے وقت منہ سے طلاق کے الفاظ کہے تھے، اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں!

جواب

جو خلع شرعاً درست ہو (یعنی عدالت سے یک طرفہ خلع نہیں لی گئی ہو) اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے، اور طلاقِ بائن کے بعد بیوی اسی شوہر سے بھی نکاح کرسکتی ہے، اور جب عدت مکمل ہو جائے تو کسی اور مرد سے بھی نکاح کرسکتی ہے؛ لہٰذا سائل اگر اپنی بیوی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے اور بیوی بھی اس پر راضی ہو تو  اب دوبارہ گھر بسانے کے لیے دوشرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر  اور نئے ایجاب و قبول کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا ضروری ہے، اور تجدیدِ نکاح کے بعد شوہر کو صرف 2 طلاقوں کا اختیار ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 440):

"قلت: قدمنا الفرق هناك، وهو أن الخلع بائن وهو لايلحق مثله، والطلاق بمال صريح فيلحق الخلع".

وفي البناية شرح الهداية:

"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى." (٥/٥٠٩)

فتاوی ھندیۃ میں ہے:

"وتنقطع الرجعة إن حكم خبروجها من الحيضة الثالثة إن كانت حرةً."

(ج:۱،ص:۴۷۱،الباب السادس في الرجعة، ط:ماجدیة)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"قال:( وله أن يتزوج مطلقته المبانة بدون الثالث في العدة وبعدها) لأن حل المحلية باق إذ زواله بالثالثة لم توجد."

(ج،۳،ص:۱۶۵،کتاب الطالق۔طبع:بیروت)

فتاویٰ ھندیہ میں ہے:

"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها يف العدة وبعد انقضائها."

(ج:۱، ص:۴۷۲، فصل فیما تحل به المطلقة وما یتصل به، ط: ماجدیة)

فقط،واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں