ایک عورت کی تین سال قبل شادی ہوئی، پھر زوجین میں ان بن ہونے کی وجہ سے دونوں الگ ہو گئے، تقریباً نو دس ماہ بعد عورت نے شوہر سے خلع لینے کا فیصلہ کیا، اب وہ عورت خلع لینے کے بعد عدت کہاں گزارے گی؟ کیا وہ اپنے والدین کے گھر عدت گزار سکتی ہے؟ یا پھر شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارنی ہوگی؟
اگر بیوی اپنے شوہر کی رضامندی سے خلع لے لے، تو خلع صحیح ہوجائےگا اور عدت شوہر کے گھر ہی میں گزارےگی، کسی شدید مجبوری کے بغیر دوسری جگہ عدت گزارنا جائز نہیں ہے۔
نوٹ: خلع کے درست ہونے کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے، شوہر کی رضا مندی کے بغیر یک طرفہ عدالتی خلع کا اعتبار نہیں ہے۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."
(كتاب الطلاق، ج:3، ص:536، ط:سعيد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولا تقع البراءة عن نفقة العدة في الخلع والمبارأة والطلاق بمال إلا بالشرط في قولهم وكذا لا تقع البراءة عن نفقة الولد والرضاع من غير شرط فإن شرط البراءة عن ذلك فإن وقت لذلك وقتا جاز وإلا فلا وإذا جازت البراءة عند بيان الوقت والشرط فإن مات الولد قبل تمام الوقت كان للزوج أن يرجع عليها بحصة الأجر إلى تمام المدة كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الطلاق، ج:1، ص:489، ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100027
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن