بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر خرچہ دیتا ہے لیکن فون پر بات نہیں کرتا تو بیوی کیا کرے؟


سوال

 میرا شوہر ریاض میں ہے اور  اب وہ دوسری شادی کر چکا ہے اور میرے شوہر سے میرے تین بچے ہیں لیکن وہ مجھ سے نہ بات کرتا ہے فون پہ نہ ویڈیو آڈیو کال کرتا ہے نہ کوئی بیوی شوہر جیسے تعلقات ہیں میں نے اس کو کہا بھی اپنے پاس بلانے کے لئے لیکن کوئی جواب نہیں دیا میسج کا صرف خرچ بھیج رہا ہے جس سے میں گھر کا کرایہ گھر کا خرچ اور بچوں کی فیسیں سب چلاتی ہوں لیکن میاں بیوی والا ہمارا کوئی تعلق کوئی حقوق ادا نہیں ہو رہے نہ وہ بلا رہے ہیں اب تیسرا سال شروع ہوچکا ہے نہ وہ طلاق دے رہا ہے نہ مجھ سے رابطہ رکھنا چاہتا ہے تو مجھے خلع کے لئے کیا کرنا چاہیے اور خلع اگر نہیں ہو سکتی تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ جبکہ وہ کسی کے کہنے پہ بھی طلاق نہیں دے رہا۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ وجوہات کی بنا پر طلاق، یا خلع کا مطالبہ درست نہیں بلکہ  طلاق یا خلع کے مطالبہ سے پہلے دونوں خاندان بڑے مل بیٹھ کر شوہر سے رابطہ کریں، اور شوہر کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ بیوی بچوں سے فون پر رابطہ کرے، اور چھٹی ملنے پر اپنے ملک آ کر  چھٹیاں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزاریں، اگر وہ آمادہ ہو جاتا ہے تو فبہا ورنہ دونوں خاندان کے بڑے جو فیصلہ کریں اس کے مطابق عمل کریں۔

نیز عام حالات میں شوہر کے لیے بیوی کی اجازت کے بغیر چار ماہ تک اور بیوی کی اجازت ہو تو چار  ماہ سے زائد عرصہ دور رہنا جائز ہے۔ یہ حکم عام حالات میں  اور کبھی کبھار ضرورت پیش آنے  کی صورت کا ہے، لیکن اگر اتنا عرصہ دور رہنے کی صورت میں میاں بیوی میں سے کسی ایک کے بھی فتنے میں مبتلا ہونے کا یقین یا غالب گمان ہوتو پھر بیوی کی اجازت کے ساتھ بھی دور رہنا جائز نہ ہو گا، اور جہاں غالب گمان تو نہ ہو، مگر کسی درجے میں احتمال ہوتو وہاں بھی حتی الامکان اس سے احتراز ہی لازم ہے، اور اس سلسلے میں مدت کی کوئی قید نہیں ہے، بلکہ یہ مدت عرف اور حالات کے لحاظ سے بدلتی رہے گی، جب کہ موجودہ حالات میں ملازمت، کمائی وغیرہ کے سلسلے میں  سالہا  سال بیوی سے دور  رہنا فتنے سے خالی نہیں ہے اور  اتنی  مدت کے ليے بیوی کو چھوڑ کر جانا کہ اس کے فتنے میں واقع ہونےکا غالب گمان ہو یا دیگر حقوق ضائع ہورہے ہوں ہرگز جائز نہیں۔
لہذا گھر سے دور بیرونِ ملک رہائش پذیر افراد کو اولا تو ایسی ملازمت و کاروبار تلاش کرنا چاهيے کہ چار ماہ سے پہلے گھر کاچکر لگانا ممکن ہو،یا بیوی کو اپنے ساتھ ملازمت کی جگہ منتقل کردے،  البتہ اگر کوئی ایسی صورت ممکن نہ ہو اور گھر سے بہت زیادہ دور جانا پڑجائے، جہاں سے سال دو سال تک واپسی مشکل ہوتو ایسی صورت میں درج ذیل شرائط کے ساتھ وہاں ٹھہرنا جائز ہوگا:

1:  اس مدت میں بیوی کو حقوق زوجیت (جماع وغیرہ ) کی طرف زیادہ شوق و رغبت نہ ہو۔
2: اتنے عرصے میں بیوی یا خود شوہر کے فتنے میں پڑنے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو۔
3: بیوی کی اجازت ہو۔
4: نان و نفقہ اور اولاد کی تعلیم اور تربیت کا مناسب انتظام کیا جائے۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عبد الرزاق، عن ابن جريج، قال: أخبرني من أصدق، أن عمر وهو يطوف، سمع امرأة وهي تقول: تطاول هذا الليل واخضل جانبه … وأرقني إذ لا خليل ألاعبه

فلولا حذار الله لا شيء مثله … ‌لزعزع من هذا السرير جوانبه،فقال عمر: فما لك؟ قالت: أغربت زوجي منذ أربعة أشهر، وقد اشتقت إليه، فقال: أردت سوءا؟ قالت: معاذ الله، قال: فاملكي عليك نفسك فإنما هو البريد إليه، فبعث إليه، ثم دخل على حفصة، فقال: إني سائلك عن أمر قد أهمني فأفرجيه عني، في كم تشتاق المرأة إلى زوجها؟ فخفضت رأسها واستحيت، فقال: فإن الله لا يستحيي من الحق، فأشارت بيدها ثلاثة أشهر وإلا فأربعة، فكتب عمر: ألا تحبس الجيوش فوق أربعة أشهر."

(كتاب الطلاق، باب حق المرأة على زوجهاوفي كم تشتاق، ج: ۷، صفحہ: ۱۰۹، ط: دار التأصيل) 

فتاوی شامی میں ہے:

"ويؤيد ذلك أن عمر - رضي الله تعالى عنه - لما سمع في الليل امرأة تقول: فوالله لولا الله تخشى عواقبه لزحزح من هذا السرير جوانبه فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد، فسأل بنته حفصة: كم تصبر المرأة عن الرجل: فقالت أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لا يتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها، ولو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها."

(كتاب الطلاق، باب القسم بين الزوجات، ج: ۳، صفحہ: ۲۰۳، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101947

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں