بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کا مطالبہ کرنا


سوال

میری بیٹی کے نکاح کو پانچ سال ہوگئے ہیں ،وہ فیصلہ نہیں کرپارہی کہ خلع لے یا نہیں ؟ میں بہت پریشان ہوں،نکاح کے کچھ مہینے کے بعد سے ہی اس کو لگ رہا ہے کہ نکاح ختم کردینا چاہیے، مگر پھر اتنا بڑا فیصلہ کرنےسے ڈر کر  رک گئی،بس اسی طرح  ہاں اور  نا میں پانچ سال گزر گئے،وہ جانتی ہے کہ فیصلہ نہیں کرپارہی ،اس لیے اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں اس کی طرف سے فیصلہ کردوں ،ہم سب ذہنی اذیت کا شکار ہیں ،مجھ کو بتائیں کہ میں کیا کروں ؟اتنا بڑا فیصلہ کیسے کروں؟

جواب

آپ کےسوال میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ آپ کی بیٹی خلع کیوں لینا چاہتی ہے اور اس نکاح کو  کیوں ختم کرنا چاہتی ہے ؟اصولی بات  یہ ہے کہ اگر عورت یہ محسوس کرے کہ شوہر کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہوسکتا اور وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے تو وہ شوہر سے مہر کے بدلے خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے، اس پر کوئی گناہ نہیں،لیکن بغیر کسی معقول وجہ کے خلع  کا مطالبہ کرنا شرعًا درست نہیں ،   جو  مسائل  ہیں وہ  خاندان کے بزرگوں  کے سامنے  رکھیں  اور ان سے حل کروانے کی کوشش کریں ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"إذا تشاقّ الزوجان و خافا أن لايقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعهابه، فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة، ولزمها المال."

(كتاب الطلاق ،  الباب الثامن في الخلع، 1/ 519 ط:قديمي)   

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201945

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں