بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعی عذر کے بغیر بیوی کا شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنا


سوال

میری بیوی آئے روز مجھ سے خلع کا مطالبہ کرتی رہتی ہے اور تھوڑے دن گزرنے کے بعد معافی مانگتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھے ایسی کیفیت میں اکیلا مت چھوڑنا نہیں تو میں تباہ ہوجاؤں گی، وہ پہلے سے ایک شوہر سے خلع لے چکی ہے اور اس سے ایک بچہ بھی ہے، جوکہ شوہر کے پاس ہے اور اپنے پہلے شوہر اور بچے کو یاد کر کے روتی رہتی ہے، میں اس کی کیفیت کو دیکھ کر نظر انداز کرتا رہتا ہوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ٹھیک ہوجائے گی، لیکن اس بار انتہائی سنگین حالت ہے، مجھے ایک پیپر خلع کی درخواست لکھ کر بھی دے دی ہے جس میں وضاحت سے لکھاہے کہ میں ایک شریف انسان ہوں اور میرے خواب بہت اونچے ہیں، آپ میری خواہشات کو پورا نہیں کر سکتے، لہذا مجھے طلاق دے دو تاکہ میں کسی امیر انسان سے شادی کر لوں، اور وہ جاب کرتی ہے اور وہاں بہت سارے غیر مرد آئے دن اسے شادی کے لئے پرپوز کرتے رہتے ہیں، میرے منع کرنے پر بھی وہ جاب نہیں چھوڑ رہی، میں نے ابھی اس سے ملاقات کرنی چھوڑ دی ہے اور اس کا نمبر بلاک کردیا ہے، تاکہ مجھے ذہنی سکون حاصل ہو۔

میں چاہتا ہوں کہ اس معاملہ کو بغیر طلاق دیے کچھ عرصہ چلاؤں تاکہ  وہ ہدایت کی طرف آجائے، کیا میرا یہ اقدام کہ اس کی خلع کی درخواست قبول نہ کرنا، اس سے میں گناہ گار تو نہیں ہوں گا؟

جواب

اگر آپ بیوی کو نان نفقہ دے رہے ہیں اور اس کے دیگر حقوق بھی پورے کررہے ہیں تو اس کا کسی مال دار شخص سے شادی کرنے کے لیے آپ سے  طلاق کا مطالبہ کرنا غیرشرعی مطالبہ ہے، جسے پورا نہ کرنے میں آپ حق بجانب ہیں، نیز اس کا آپ کی بات نہ ماننا اور ملازمت نہ چھوڑنااور غیرمردوں سے ایسی بے تکلفی برتنا کہ وہ اسے شوہر سے ہی نفرت دلائیں، سارےکام ناجائز اور گناہ  ہیں، حدیث مبارک  میں ہےکہ :’’جو عورت بغیر کسی شرعی وجہ کے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے  اس پر جنت حرام ہے‘‘، ایک اور حدیث میں ہے کہ:’’جب عورت(بغیر کسی وجہ کے) اپنے شوہر  کے بستر سے علیحدہ ہو کر رات گذارتی ہے ،تو جب تک وہ عورت (شوہر کی طرف)واپس نہ آجائے   فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں‘‘،فرماں بردار بیوی کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہےکہ: ’’  جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) روزے رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔‘‘نیز جو لوگ میاں بیوی کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا وہ ہم میں سے یعنی مسلمانوں میں سے نہیں ہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں آپ کو چاہیے کہ پہلے خود یا خاندان کے بزرگ اور معزز افراد کے ذریعے اسے سمجھانے کی کوشش کریں، اگر وہ کسی طور پر راضی نہ ہو تو پھر اس کے مطالبےپر اسے طلاق دے دیں، معاملہ لٹکاکر نہ رکھیں، باقی اس کا مطالبہ چونکہ ناجائز ہے اس وجہ سے طلاق دینے کا وبال آپ پر نہیں ہوگا بلکہ اسی پر ہوگا۔

 سنن أبي داود  میں ہے:

"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة»."

(الطلاق، باب في الخلع، 3/ 543، ط:دارالرسالة العالمية)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إذا باتت المرأة ‌مهاجرة ‌فراش زوجها، لعنتها الملائكة حتى ترجع."

(کتاب النکاح، باب اذا باتت المراۃ مھاجرۃ فراش زوجھا،2،/782، ط:قدیمی)

مشکاۃ  شریف میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة إذا ‌صلت ‌خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت» . رواه أبو نعيم في الحلية."

(كتاب النكاح،‌‌باب عشرة النساء،2/ 971،  ط: المكتب الإسلامي بيروت)

سنن أبي داود میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:ليس منا من ‌خبب ‌امرأة على زوجها، أو عبدا على سيده."

(كتاب الطلاق،باب فيمن ‌خبب ‌امرأة على زوجها، 3/ 503، ط: دارالرسالة العالمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100811

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں