میرے رشتہ داروں میں سے کسی نے میرا رشتہ مانگا، لڑکے کا اٹھنا بیٹھنا صحیح لوگوں کے ساتھ نہیں تھا ، غلط لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا ، گھر والوں نے منع کر دیا ، حالت خراب ہونے کی وجہ سے ہماری گلی سے شفٹ ہو گئے، حالت بہتر ہوئی تو واپس آگئے، لڑکے نے داڑھی رکھ لی تھی ، بتایا گیا کہ اب یہ ٹھیک ہو گیا ، نمازی ہے ، تبلیغ کے لیے بھی جاتا ہے، کماتا ہے، اپنا گھر ہے ، پھر میرا رشتہ مانگا گیا ، گھر والے منگنی کے لیے راضی ہو گئے، منگنی سے ایک دن پہلے لڑکے والوں نے منگنی کے ساتھ نکاح کا مطالبہ کیا، منگنی کے دن نکاح بھی ہو گیا ، بعد میں پتہ چلا کہ لڑکا ٹھیک نہیں ہوا ہے ، راتوں رات دوسروں کے گھر جانا، ناجائز تعلقات رکھتا ہے، کماتا نہیں تھا، اپنا گھر نہیں تھا، سب جھوٹ بولا گیا تھا، مجھ سے ادھار مانگا، پھر طلب کرنے پر نہیں دیتا تھا، نکاح کے بعد کبھی مجھے کوئی چیز نہیں دی، چاہے کھانے پینے کی کیوں نہ ہو ، نہیں دی، جب میں ان کی حرکتوں کی وجہ سے بیزار ہو گئی، تو لڑکے نے مجھے میری ماں کو تھانے میں بند کروانے کی دھمکی بھی دی ، اسی حالت کی وجہ سے میں نے عدالت سے خلع لی ،شوہر پہلے خلع پر راضی نہیں تھے، کہ مجھے ایک موقع دے دو، لیکن آخری مرتبہ جج نے ان سے کہا کہ یہ آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی، ہم اس نکاح کو تنسیخ کرنا چاہتے ہیں، تو اس پر انھوں نے کہا کہٹھیک ہے ، اگر یہ ختم کرنا چاہتی ہےتو،عدالتی خلع سے قبل شوہر نے لڑائی کے دوران ایک کزن کو یہ میسج بھی بھیجاکہ"اس کو بولو ، اب آزاد ہو، کر لو اپنی مرضی سے شادی، جو مجھ سے اچھا رکھ سکے"ابھی تک رخصتی بھی نہیں ہوئی ، اور نہ ہی میاں بیوی کی کوئی ملاقات وغیرہ ہوئی ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ ان الفاظ کا کیا حکم ہے، اور یہ کہ میری خلع ہو گئی ہے یا نہیں ؟ کیا میں دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہوں؟
صورتِ مسئو لہ میں سائلہ کے شوہر نے جب کزن کے ساتھ گفتگو کے دوران اپنی بیوی سے متعلق یہ ا لفاظ کہے تھے کہ:اس کو بولو اب آزاد ہو، کر لو اپنی اپنی مرضی سے شادی، جو مجھ سے اچھا رکھ سکے، توسائلہ پر اسی وقت ایک طلاق بائن واقع ہوکر نکاح ختم ہوچکا تھا ، اور مذکورہ طلاق کے وقت سائلہ اپنے والدین کے گھر تھی، اور سائلہ کی ابھی تک رخصتی بھی نہیں ہوئی ،اور نہ ہی شوہر سے خلوت صحیحہ ( یعنی تنہائی میں بغیر مانع کے ملاقات) ہوئی ہے ، تو سائلہ پر عدت بھی لازم نہیں ہے ،اور سائلہ کا دوسری جگہ نکاح کرنا شرعاجائز ہے، باقی چوں کہ سائلہ کا اپنے شوہر سے نکاح عدالتی خلع سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا،تو اس کے بعدعدالتی خلع کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی ، تاہم مذکورہ عدالتی خلع سائلہ کوآئندہ کے اعتبار سے، کسی دوسری جگہ شادی کرنے کے وقت قانونی دشواری اور پیچیدگی سے بچانے میں کام آئے گا، بوقتِ ضرورت عدالتی خلع کو اپنے دفاع میں پیش کر سکے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت."
(کتاب النکاح ،باب الصریح الطلاق ،252/3،ط،دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قال لامرأته: أنت علي حرام)ونحو ذلك...ويفتى بأنه طلاق بائن (وإن لم ينوه) لغلبة العرف(
(قوله: لغلبة العرف) إشارة إلى ما في البحر، حيث قال: فإن قلت إذا وقع الطلاق بلا نية ينبغي أن يكون كالصريح فيكون الواقع به رجعيا قلت: المتعارف به إيقاع البائن، كذا في البزازية اهـ أقول: وفي هذا الجواب نظر فإنه يقتضي أنه لو لم يتعارف به إيقاع البائن يقع الرجعي كما في زماننا، فإن المتعارف الآن استعمال الحرام في الطلاق، ولا يميزون بين الرجعي والبائن فضلا عن أن يكون عرفهم فيه البائن، وعلى هذا فالتعليل بغلبة العرف لوقوع الطلاق به بلا نية، وأما كونه بائنا فلأنه مقتضى لفظ الحرام لأن الرجعي لا يحرم الزوجة ما دامت في العدة وإنما يصح وصفها بالحرام بالبائن، وهذا حاصل ما بسطناه في الكنايات فافهم."
(کتاب الطلاق ،مطلب فی قوله انت علی حرام،433/3،ط،دار الفکر)
احسن الفتاوی میں ہے:
"(3) میں نے آزاد کردیا
تیسرا جملہ صریح بائن ہے ،لہذا اس سے طلاق کی نیت نہ ہو توصرف تیسرے جملہ سے ایک طلاق بائن ہوگی."
( كتاب الطلاق، 5/202،ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101745
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن