بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جُمادى الأولى 1446ھ 06 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کا حکم


سوال

میں نے 2012 میں شادی کی تھی ،پر ہمارے درمیان  رشتہ قائم نہ رہ سکا اور 2015 میں وہ چلی گئی اور عدالت میں کیس کیا اور دونوں کی رضامندی سے ہماری طلاق ہوگئی  ،پھر مجھے2019 میں  ایک لڑکی سے  محبت ہوگئی ،میں نے اس  کے گھر بہت رشتے بھیجے ،اسی دوران میں نے اور اس لڑکی نے 2020 میں کورٹ میرج باقاعدہ اسلامی طریقہ سے نکاح کرلیا ،پھر ہمارا رشتہ ہوا، لڑکی کو میں نے اپنی طلاق کا پہلے بتا یا تھا ،اس نے کہا تھا کہ میرے گھر والوں کو نہ بتانا،جب وقت آئے گا  میں بتادوں گی   تو یا وہ خود ہی پتہ لگا لیں گے ،پھر ہمارے منگنی کی بات چلی، وہ آئے، ہمارے گھر  والے گئے، سب کچھ ہوا، پھر ان کو  میری طلاق کا  پتہ چلا  اور یہ الٹے ہوگئے ،پھر اب ان کو ہمارے نکاح کا پتہ چل گیا ہے ،لڑکی سے موبائل لے لیا ہے اس پر دباؤ ڈالا ہوا ہے ،لڑکی بھی رابطہ نہیں کررہی اور خلع کا کیس بھی ڈال دیا ہے ،لیکن میں ابھی بھی جرگے منتیں کررہا ہوں ،معافیاں مانگ رہا ہوں کہ یہ لوگ مان جائیں، پر نہیں مانتے اور اسلام میں ہے کہ شوہر کی رضا سے ہی  طلاق ہوگی  تو کیا آپ راہ نمائی کریں گے کہ یہ اگر خلع لے بھی لیں تو کیا وہ جائز ہے؟ اور طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ پر میں چاہتا ہوں کہ ہمارا گھر آباد ہو، میں اور لڑکی ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں ۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل کے لیے چھپ کر کورٹ میرج کرنا مناسب نہیں تھا، تاہم اگر دو مسلمان مردوں یا  ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں سائل اور مذکورہ خاتون نے ایک ہی مجلس میں ایجاب وقبول کرلیا تھا تو نکاح منعقد ہوگیا تھا ،اب جب تک سائل طلاق یا خلع نہ دے طلاق واقع نہ ہوگی ،اگر سائل کی اجازت کے بغیر  لڑکی یا لڑکی والے لڑکی کی جانب سے خلع لے لیں تو یہ خلع شرعاً معتبر نہ ہوگا ،کیوں کہ   خلع  دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے،جس طرح دیگر مالی معاملات کے درست اور معتبر ہونے  کے لیے عاقدین کی رضامندی شرعاً ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع کے درست اور معتبر ہونے کے لیے بھی جانبین (زوجین)کی رضامندی ضروری  ہوتی ہے اور شوہر کی رضامندی کے بغیر یک طرفہ خلع شرعا ًمعتبر نہیں ہوتا ،اگر چہ  وہ یک طرفہ عدالتی خلع کیوں نہ ہو ۔

یہ  اصولی جواب ہے باقی جب کورٹ فیصلہ سنادے تو اپنے مسئلہ سے متعلق کورٹ کے فیصلہ سمیت ہمار ے دارالافتاء آجائیں یا کاغذات ( بمع ترجمہ)سمیت دوبارہ سوال بھیجیں  ،پھر آپ کے مسئلہ کے متعلق جواب دے دیا جائے گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده۔"

(ج:۳،ص:۴۴۰،باب الخلع ،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔"

(ج:۳،ص:۱۴۵ ،فصل فی شرائط رکن الطلاق،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں