بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کا عدالتی فیصلے کا کیا حکم ہے؟


سوال

۱۔عورت کو عدالت سے خلع کی ڈگری / فیصلہ موصول ہو جانے کے بعد کیا شوہر سے نکا ح باطل ہوگیا؟ 

۲۔  کیا اس فیصلہ کے بعد شوہر سے بھی طلاق لینا لازم ہوگا؟

۳۔ اگر شوہر بضد ہو جاۓ کہ میں خلع کے فیصلہ کو نہیں مانتا تو اس صورت حا ل میں شریعت اسلام کے مطا بق کیا لائحہ عمل اختیار کیا جاۓ؟

جواب

۱،۲،۳۔ عدالت نے عورت کو کیا فیصلہ دیا اور کس بنیاد پر دیا ہے اس کی دستاویز دیکھے بغیر حتمی حکم بیان نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا دار الافتاء میں عدالتی دستاویزات مع اردو ترجمہ کے بھیج کر جواب معلوم کرلیا جائے۔

 اصولی جواب یہ ہے کہ:

خلع  مالی معاملات کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی  ہے،  لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے، نیز طلاق دینا بھی شوہر کا حق ہے،  اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  بیوی  عدالت سے خلع یا طلاق لے لے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

البتہ بعض مخصوص حالات میں قاضی  شرعی کو یہ  اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  شوہر کی اجازت کے بغیر بھی  میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ   نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں  جو  نکاح کے مصالح  اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے،  اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، مثلاً بیوی کا نان ونفقہ  اور حقوق زوجیت ادا کرنا وغیرہ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز ہوتو عورت کو طلاق دے دے، ایسی صورت میں اگر وہ طلاق دینے سے انکار کرتا ہے یا شوہر طلاق دینے کے قابل نہیں ہے تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے۔

 لہذا اگر شوہر اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں لاتا اور اپنا گھر بسانے پر تیار نہیں ہوتا،  نان ونفقہ  دینے پر راضی نہیں ہوتا  تو ایسی صورت میں مذکورہ عورت  کو چاہیے کہ خاندان کے  معزز لوگوں کے سامنے یا محلے کی پنچایت کے سامنے اس معاملہ کو رکھے، اور ان کے تعاون سے اس مسئلہ کا حل نکالا جائے، اور اگر شوہر  پھر بھی اپنی ضد پر اڑا رہے، اور اپنے رویہ میں  تبدیلی نہیں لائے تو سائلہ  اپنے  شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرکے کسی طرح طلاق حاصل کرلے، اور اگر وہ طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو  باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرے،  اور خلع میں شوہر کے لیے بدلِ خلع یعنی خلع کے عوض مال لینا جائز نہ ہوگا،  تاہم لینے کے باوجود خلع ہوجائے گا اور نکاح ختم ہوجائے گا۔

لیکن اگر شوہر نہ طلاق دے اور نہ ہی خلع  دینے پر رضامند ہو اور بیوی کے ساتھ نباہ پر اور اس کو نان ونفقہ دینے پر بھی تیار نہ ہو تو   سخت مجبوری کی حالت میں  عدالت سے تنسیخِ نکاح کرایا جاسکتا ہے،  جس کی صورت یہ ہے کہ  عورت اپنا مقدمہ مسلمان جج کے سامنے  پیش کرے، اور متعلقہ جج  شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ  معاملہ کی  پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ  صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر  باوجود  وسعت کے  خرچہ نہیں دیتا تو اس کے  شوہر سے کہا جائے کہ  عورت کے حقوق ادا کرو یا  طلاق دو ،  ورنہ ہم تفریق کردیں گے،  اس کے بعد بھی اگر  وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو عورت پر طلاق واقع کردے۔ (ماخوذ از حیلہ ناجزہ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں