بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع ہوجانے کے بعد بچوں کی پرورش کا حق کس کو حاصل ہے؟


سوال

ایک عورت اپنے شوہر کے نکاح میں رہتے ہوئے کسی غیر مرد سے فون اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ناجائز تعلقات رکھے،  غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکات میں مبتلا رہے،  اور شوہر جب اس بارے میں سمجھائے اور توبہ کرنے کا تقاضا کرے تو شوہر پر جھوٹے،  گندے الزامات لگاکر شوہر سے خلع لے کر الگ ہوجائے،  اور پھر بعد میں شوہر کی سچائی بھی ثابت ہوجائے، اور وہ عورت اُسی غیر مرد سے شادی کرلے،  یہاں علماء سے سوال یہ ہے کہ ماں کے ان تمام معاملات سے دونوں بچے  (ایک بچہ ہے، جس کی عمر 12 سال ہے، اور ایک بچی ہے، جس کی عمر 9 سال ہے)  آگاہ رہے ہیں،  مگر باپ کو خوف کی وجہ سے آگاہ نہیں کرسکے، اور خلع کے بعد آگاہ کیا، اور اب وہ باپ کے ساتھ رہ رہے ہیں، اور باپ کے ساتھ ہی رہنے کے خواہش مند ہیں، اور ماں سے تعلق نہیں رکھنا چاہتے،   تو ایسی صورت میں بچوں کی پرورش کا حق کس کو حاصل ہے؟

جواب

 بچے کی پرورش کا حق سات سال تک اور بچی کی پرورش کا حق نو سال تک والدہ کو حاصل ہوتا ہے، اس کے بعد بچوں کا والد پرورش کا حق دار قرار پاتا ہے،  لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے بارہ سالہ بچے اور نو سالہ بچی کی پرورش کا حق سائل کو حاصل ہے، بچوں کی والدہ پرورش کی حق دار نہیں ہے، خواہ والدہ  کا دوسری جگہ نکاح ہو چکا ہو یا نہ ہوا ہو۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(تثبت للأم)...(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب...والأم والجدة) لأم، أو لأب(أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية...(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع ...(وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي.

(قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية."

(كتاب الطلاق، باب الحضانہ، ج:3، ص:555/567، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الخلاصة وغيرها: وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب."

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:566، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101819

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں