بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع دیتے ہوئے مہر کی واپسی کا بیوی سے مطالبہ کرنا


سوال

میری دوسری شادی کو تین ماہ ہوچکے ہیں، لیکن اس بیوی کا میرے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہے، میرے سوتے ہوئے  کئی مرتبہ اس نے مجھ پر حملہ کیا  ہے،  میرے جاگنے پر اس نے کہا کہ میں بخار چیک کر رہی تھی، اب وہ بھی خلع لینے پر آمادہ ہوگئی ہے۔

 میں نے  اسے بطور مہر ستر ہزار  روپے قیمت کا سونا دیا تھا ،  کیا خلع کے بدلہ میں ؛ میں وہ واپس لے سکتا ہوں؟ 

جبکہ مذکورہ بیوی جو کچھ سامان لائی تھی، میں اسے واپس دینا چاہتا ہوں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر میاں بیوی کے درمیان نباہ کی کوئی صورت نہ بن رہی ہو، اور زیادتی بیوی کی جانب سے ہو  ، شوہر بے قصور ہو  اور وہ خلع لینے پر راضی ہو تو شوہر بدلہ خلع کے طور  پر جو سونا  مہر میں  ادا کیا تھا، وہ واپس  لینے  کا شرعا حقدار ہوگا،  تاہم ادا شدہ مہر سے زائد کا مطالبہ کرنا مکروہ ہوگااور اگر قصور شوہر کا ہو یا دونوں کا ہو (جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے) تو اس صورت میں علیحدگی میں شوہر کے لیے مہر واپس لینا جائز نہیں، بلکہ بیوی کو طلاق دیکر آزاد کرنا چاہئے جس میں مہر بیوی کا ہوگا اور عدت کا نفقہ بھی ان کو ملےگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.

إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.

وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان. "

( كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به، ١ /٤٨٨، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" إزالة ملك النكاح ببدل بلفظ الخلع كذا في فتح القدير."

( كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به الخلع، ١ / ٤٨٨، ط: دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ٣ / ٤٤١، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں