بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خفیہ نکاح کرنے سے نکاح کا حکم


سوال

 میں نے اپنی پہلی بیوی کو بتائے بغیر دوسرا نکاح کر لیا۔ دوسری بیوی نے بھی اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر میرے ساتھ نکاح کیاتھا۔ ہم نے نکاح کورٹ میں کیا تھا۔ کچھ عرصہ ہمارا تعلق رہا ہم چوری چھپے ملتے رہے۔ کچھ عرصہ کے بعد میری پہلی بیوی کے گھر والوں کو پتہ چل گیا کہ میں نے دوسرا نکاح کیا ہوا ہے۔ تو انہوں نے کافی دباو ڈال کر مجھ سے طلاق نامہ لکھوا لیا اور میری دوسری بیوی کے گھر والوں کو بتا دیا۔ اب میرے سوال یہ ہیں کہ ۔ کیا ہمارا نکاح جائز تھا کیونکہ میں نے کہیں یہ پڑھا ہے کہ لڑکی اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح فاسق ہے، اگر جائز تھا تو کیا طلاق ہو چکی ہے؟اگر طلاق ہو چکی ہے تو میں دوبارہ رجوع کیسے کر سکتا ہوں۔

(یاد رہے میں نے زبانی طور پر لڑکی کو طلاق نہیں دی نہ ہی ارادہ کیا کہ میں اسے طلاق دوں)

جواب

صورتِ مسئولہ میں اپنے رشتہ داروں  کو لاعلم رکھ کر خفیہ طور پر شرعی گواہوں کی موجودگی میں  نکاح کرنے سے نکاح ہوجائے گا، دونوں میاں بیوی بن جائیں گے، لیکن یہ نکاح ازروئے شرع ناپسندیدہ طریقہ پر ہوا ہے، شریعت مطہرہ میں نکاح کو علانیۃً کہنے کا حکم دیا گیا ہے، لہذا خفیہ نکاح کرنے سے نکاح ہوجائےگا۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کو   چھپ کر خفیہ طور پر  نکاح نہیں کرنا چاہیے تھا، تاہم شرعی طور پر نکاح ہوجانے کے بعد  مذکورہ نکاح ختم نہیں کرنا چاہیے تھا، شریعتِ  مطہرہ نے نکاح ہوجانے کے بعد طلاق کو پسند نہیں کیا ہے،جس پر سائل کو اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل توبہ واستغفار کرنا چاہیے۔

باقی طلاق سے متعلق سوال واضح نہیں ہے کہ طلاق نامہ میں کتنی طلاقیں تحریر تھی؟مذکورہ شق واضح ہونے کے بعد رجوع کرنے یا نہ کرنے سے متعلق جواب دیا جاسکتا ہے۔

تحفۃ الاحوذی شرح سنن ترمذی میں ہے:

"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي المَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ».

قَوْلُهُ: (أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ) أَيْ بِالْبَيِّنَةِ فَالْأَمْرُ لِلْوُجُوبِ أَوْ بِالْإِظْهَارِ وَالِاشْتِهَارِ فَالْأَمْرُ لِلِاسْتِحْبَابِ كَمَا فِي قَوْلِهِ (وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ) وَهُوَ إِمَّا لِأَنَّهُ أَدْعَى لِلْإِعْلَانِ أَوْ لِحُصُولِ بَرَكَةِ الْمَكَانِ (وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ) أَيْ عَلَى النِّكَاحِ (بِالدُّفُوفِ) لَكِنْ خَارِجَ الْمَسْجِدِ".

(باب ماجاء في إعلان النكاح، ج:4، ص:174، ط:دار الكتب العلمية)

مصنف ابن أبي شيبة  میں ہے:

"عن هشام، قال: كان أبي يقول: «لا يصلح نكاح السر»".

(کتاب النکاح، باب ماقالوا في اعلان النكاح، ج:3، ص:495، ط:مكتبة الرشد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406102277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں