بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

خفیہ نکاح اور ولی کی اجازت کےبغیر نکاح کرنا کیسا ہے؟


سوال

میں شادی شدہ بزنس مین ہوں اور پانچ بچوں کا باپ ہوں، میرے تین بچوں کی شادی ہوگئی ہے، دل کا مریض ہوں، مجھے ایک  خاتون  نے نکاح کےلیے کہا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ نکاح خفیہ ہوجائے اور  وہ اپنے گھر میں ہی رہیں اور  وہ کہتی ہیں کہ  میں اپنے حقوق معاف کرتی ہوں، جب کہ  میں نےکہا کہ میں اپنی فیملی میں بتا نہیں سکتا اور نہ ہی آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں، وہ میرے عشق میں مبتلا  ہیں، کہتی  ہیں کہ مجھے صرف آپ کا نام چاہیے۔

یہ مطلقہ خاتون ہیں، ان کے ماں باپ کا انتقال ہوگیا ہےاور بھائی  کوئی نہیں ہے، جناب میری راہ نمائی کریں کیا میں خفیہ نکاح کرسکتا ہوں؟ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے؟ میں ان کو  برابری کے حقوق نہ دےسکوں گا، کیوں کہ خاتون  دعوی کررہی ہیں کہ میرا کوئی تقاضہ نہیں ہوگا اور میں نے خاتون سے کہا ہے کہ میں نکاح رجسٹرڈ نہیں کراؤں گا، کیوں کہ شناختی کارڈ سے تمام ڈیٹا نکل جاتا ہے۔

1۔ کیا  خفیہ نکاح کرنا میرے لیے ٹھیک ہے؟

2۔اگر خاتون بعد میں اپنے حقوق کا تقاضہ کریں تو کیا مجھے ان   کے حقوق ادا کرنے ہوں گے؟

3۔کیا یہ خاتون اپنا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کرسکتی ہیں؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں آپ کے اپنے گھر والوں کو لاعلم رکھ کر خفیہ طور پر شرعی گواہوں کی موجودگی میں  نکاح کرنے سے نکاح  شرعاً منعقد ہوجائے گا، دونوں میاں بیوی بن جائیں گے، لیکن اس طرح نکاح کرناسنت  کے خلاف اورنا پسندیدہ طریقہ ہے،  اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

2۔بیوی اپنے حقوق معاف کرنے کے بعد اگر کسی وقت ان کا مطالبہ کرے گی تو شوہر اس کے حقوق کی ادائیگی کا پابند ہوگا، اس صورت میں پہلی اور دوسری بیوی  کے  درمیان عدل و انصاف کرنا  یعنی دونوں  کے ساتھ  نان و نفقہ ، لباس اور  شب باشی میں برابری کرنا ضروری ہوگا، بیویوں کےدرمیان برابری نہ کرنے والے شوہر کے لیے احادیث میں سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

3۔مذکورہ خاتون  اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرسکتی ہیں،البتہ بہتر یہ ہے کہ   اپنے ولی یا خاندان کے قریبی لوگوں کو اعتماد میں لے کر یا کم از کم انہیں اطلاع کرکے یہ نکاح کرے۔

"فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُوا."[الآية:3]

ترجمہ:"پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھو گے تو پھر ایک ہی (بی بی پر بس کرو) یا جو لونڈی تمھاری ملک میں ہو (وہی سہی) اس (امرمذکور) میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب تر ہے ۔"(بیان القرآن)

سنن ترمذی میں ہے:

1141 - "حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي قال: حدثنا همام، عن قتادة، عن النضر بن أنس، عن بشير بن نهيك، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة ‌وشقه ‌ساقط".

(أبواب النكاح، ‌‌باب ما جاء في التسوية بين الضرائر، ج:3، ص:439، ط: مصطفى البابي الحلبي)

ترجمہ: ”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتےہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کےدن(میدان حشر میں)ا س طرح آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط ہوگا“۔

وفيه أيضاّ:

1089 - "حدثنا أحمد بن منيع قال: حدثنا يزيد بن هارون قال: أخبرنا عيسى بن ميمون الأنصاري، عن القاسم بن محمد، عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌أعلنوا ‌هذا ‌النكاح، واجعلوه في المساجد، واضربوا عليه بالدفوف".

(أبواب النكاح، ‌‌‌‌باب ما جاء في إعلان النكاح، ج:3، ص:390، ط: مصطفى البابي الحلبي)

ترجمہ:”ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم نکاح کا اعلان کیا کرو، نکاح مسجد کےاندر کیاکرو اور نکاح کے وقت دف بجایا کرو“۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

3152 - "(وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌أعلنوا ‌هذا ‌النكاح) أي: بالبينة فالأمر للوجوب أو بالإظهار والاشتهار فالأمر للاستحباب كما في قوله (واجعلوه في المساجد) وهو إما لأنه أدعى إلى الإعلان أو لحصول بركة المكان وينبغي أن يراعى فيه أيضا فضيلة الزمان ليكون نورا على نور وسرورا على سرور، قال ابن الهمام: " يستحب مباشرة عقد النكاح في المسجد لكونه عبادة وكونه في يوم الجمعة " اه، وهو إما تفاؤلا للاجتماع أو توقع زيادة الثواب أو لأنه يحصل به كمال الإعلان".

(كتاب النكاح، باب إعلان النكاح والخطبة والشرط، ج:5، ص:2072، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومما يجب على الأزواج للنساء العدل والتسوية بينهن فيما يملكه والبيتوتة عندها للصحبة والمؤانسة لا فيما لا يملك وهو الحب والجماع كذا في فتاوى قاضي خان......وإن رضيت إحدى الزوجات بترك قسمها لصاحبتها جاز ولها أن ترجع في ذلك كذا في الجوهرة النيرة........وإذا كانت له امرأة وأراد أن يتزوج عليها أخرى وخاف أن لا يعدل بينهما لا يسعه ذلك وإن كان لا يخاف وسعه ذلك والامتناع أولى ويؤجر بترك إدخال الغم عليها كذا في السراجية. والمستحب أن يسوي بينهن في جميع الاستمتاعات من الوطء والقبلة".

(كتاب النكاح، الباب الحادي عشر في القسم، ج:1، ص:340/341، ط: دار الفكر)

وفيه أيضاّ:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخرا وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخرا أيضا حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للأولياء حق الاعتراض وروى الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أن النكاح لا ينعقد وبه أخذ كثير من مشايخنا رحمهم الله تعالى، كذا في المحيط والمختار في زماننا للفتوى رواية الحسن وقال الشيخ الإمام شمس الأئمة السرخسي رواية الحسن أقرب إلى الاحتياط، كذا في فتاوى قاضي خان في فصل شرائط النكاح وفي البزازية ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكرا كانت أو ثيبا على قول الإمام الأعظم وهذا إذا كان لها ولي فإن لم يكن صح النكاح اتفاقا".

(كتاب النكاح، الباب الخامس في الأكفاء في النكاح، ج:1، ص:292، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة".

"(قوله: ويندب إعلانه) أي إظهاره والضمير راجع إلى النكاح بمعنى العقد لحديث الترمذي «أعلنوا هذا النكاح واجعلوه في المساجد واضربوا عليه بالدفوف".

(كتاب النكاح، ج:3، ص:8، ط: سعيد)

وفيه أيضاّ:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا (وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد".

"يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لا تنسب إلى ‌الوقاحة بحر".

(كتاب النكاح، باب الولي، ج:3، ص:56، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603103146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں