بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خفیہ کئے گئے نکاح میں مہر کا حکم


سوال

ایک لڑکا اور لڑکی نے چھُپ کر ولی کی اجازت کے بغیر دو مسلمان عاقل بالغ گواہ کے سامنے ایجاب و قبول کیا،لڑکا دین داری، حسب  ونسب اور تعلیم میں لڑکی کے برابر ہے ،لڑکی کے گھر والے مال داری میں لڑکے کے گھر والے سے کم ہیں، لڑکا امیر گھرانے سے ہے، لیکن لڑکے کے پاس اپنا روپیہ ابھی نہیں ہے ،گھر والے کا ہے ،لڑکے نے پیشہ ابھی شروع ہی کیا ہے، اتنا روپیہ کما لیتا ہے کہ لڑکی کا خرچ اٹھا سکتا ہے ،لڑکی کا نکاح مہر ِمثل میں ہی ہوا ہے،  جِس میں آدھا مہر معجل تھا جو کہ ادا کر دیا گیا، اور آدھا مہر موجلّ تھا ،جو کہ بعد میں کبھی ادا کیا جائےگا ، پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ لڑکا نکاح کے وقت پورا مہر ِمثل پر قادر نہیں تھا، صرف مہر معجل پر قادر تھا ،اور لڑکی ابھی رخصتی نہیں ہونا چاہتی ہے ، تین سال کے بعد رخصتی ہوگی، آپ ہمیں بتائیے کی یہ جو نکاح مہر ِمعجل پر کیا گیا ولی کی اجازت کے بغیر،  کیا یہ نکاح منعقد ہو گیا؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے لڑکی اور لڑکے دونوں اورخصوصاً لڑکی  کی حیا، اخلاق، معاشرت کا خیال رکھتے ہوئے  ولی (والدین) کے  ذریعے  نکاح کا نظام رکھا ہے کہ نکاح ولی کے ذریعے کیا جائے، یہی شرعاً، اخلاقاً اور معاشرۃً  پسندیدہ طریقہ ہے،  لیکن اگر کوئی لڑکی یا لڑکا جو کہ عاقل بالغ ہیں  خود ہی  والدین کو لاعلم رکھ کر خفیہ طور پر شرعی گواہوں کی موجودگی میں  نکاح کریں تو نکاح ہوجائے گا، دونوں میاں بیوی بن جائیں گے، لیکن یہ نکاح ازروئے شرع ناپسندیدہ طریقہ پر ہوا ہے۔ 

صورتِ مسئولہ میں  چھپ کر خفیہ طور پر مذکورہ لڑکے اور لڑکی کو نکاح نہیں کرنا چاہیے تھا،تاہم جب دونوں نے مہرِ مثل پر نکاح کرلیا، اور مہر کا کچھ حصہ ادا کرلیا گیاتو  نکاح منعقد ہوچکا ہے، لڑکے پر باقی ماندہ  مہر کا حصہ بھی ادا کرنا لازم ہے،میاں بیوی  دونوں کو چاہیے کہ حکمت ومصلحت سے اپنے بڑوں کو راضی کرکے مذکورہ رشتہ برقرار رکھیں۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

 "والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء".

(کتاب النکاح، الباب السابع فی المهر، الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة، ج:1، ص:303، ط:مکتبہ رشیدیہ)

تحفۃ الاحوذی شرح سنن ترمذی میں ہے:

"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي المَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ».

قَوْلُهُ: (أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ) أَيْ بِالْبَيِّنَةِ فَالْأَمْرُ لِلْوُجُوبِ أَوْ بِالْإِظْهَارِ وَالِاشْتِهَارِ فَالْأَمْرُ لِلِاسْتِحْبَابِ كَمَا فِي قَوْلِهِ (وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ) وَهُوَ إِمَّا لِأَنَّهُ أَدْعَى لِلْإِعْلَانِ أَوْ لِحُصُولِ بَرَكَةِ الْمَكَانِ (وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ) أَيْ عَلَى النِّكَاحِ (بِالدُّفُوفِ) لَكِنْ خَارِجَ الْمَسْجِدِ".

(باب ماجاء في إعلان النكاح، ج:4، ص:174، ط:دار الكتب العلمية)

مصنف ابن أبي شيبة  میں ہے:

"عن هشام، قال: كان أبي يقول: «لا يصلح نكاح السر»".

(کتاب النکاح، باب ماقالوا في اعلان النكاح، ج:3، ص:495، ط:مكتبة الرشد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں