بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خفیہ کیے ہوئے نکاح سے خلاصی کیسے؟


سوال

 ایک خاتون جن کا فرضی نام بنت حوا ہے۔ اپنے گھرمیں سب سے بڑی ہے۔ باپ کا انتقال ہوا ہے۔ بہن بھائی چھوٹے ہیں۔ کسی سکول میں پڑھاتی تھیں۔ اچھے خاصی دیندار گھرانے سے تعلق ہے۔مگر کچھ غلط دوستوں کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لیۓ بدکاری میں مبتلا ہوگئی۔پھر اللہ نے دل میں ڈال دیا توبہ تائب ہوئیں۔ اپنے کیے پر شرمندگی کے ساتھ ساتھ نادم و پشیمان ہوکر اللہ کے  حضور توبہ کی۔جب ان کو پتہ چلا کہ باکرہ عورت اور ثیبہ میں فرق ہوتا ہے اور اس کا شادی پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے۔ تو اس نے ایک ڈاکٹر نما شخص سے رابطہ کیا اپنی بکارت بحال کرنے کی غرض سے۔ تو اس شخص نے خاتون کو الجھایا۔ ساری باتیں اگلوادیں اس سے۔ یوں اس خاتون کی کمزوری کو پکڑ کر اسے ڈرا دھمکا کر اس سے بدکاری کرنا شروع کی۔بالآخر اسے مجبور کیا اور خاتون بھی خودکشی کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ کیوں کہ وہ زنا نہیں کروانا چاھتی تھی ۔ڈر کے مارے اس کے ہوس کا نشانہ بنتی رہی۔اس کا فائدہ اٹھاکر اس شخص نے لڑکی سے خفیہ نکاح کیا۔ لڑکی مجبورا راضی ہوئی۔ اس شخص نے اپنی اصلیت چھپاتے ہوۓ جھوٹ بولا اور لڑکی کو پھنسایا ۔یہ سلسلہ تقریبا ایک سال رہا۔چھپ کر ملاقاتیں ہوتیں۔ملاپ بھی ہوا، مگر خلوت میں وہ شخص خلاف فطرت عمل کرتا( اورل سکس کرتا) ۔پردہ کرنے اور روزہ رکھنے سے منع کرتا ۔جس کی وجہ سے خاتون نے طلاق کامطالبہ کیا ،مگر وہ نہ مانا۔ ان کا ملنا منقطع ہوا تو اس شخص نے دھمکیاں دینی شروع کی۔بہن بھائیوں اور ماں کو تکلیف دینے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ خاتون نے مجبور ہوکر بھائی کو بتایا ۔یوں یہ بات سامنے آگئی اور فیملی نے اس نکاح کو قبول نہیں کیا ،کیوں کہ وہ شخص 60 بر س کا ہے اور لڑکی 28 سال کی ۔کفو کے برابر نہ ہونے پر لڑکے کے اولیاء راضی نہ ہوۓ۔ اب وہ شخص طلاق نہیں دینا چاھتا جبکہ لڑکی طلاق چاہتی ہے۔ کورٹ گئی  اور خلع کی ڈگری حاصل کی ،پھر بھی مطمئن نہیں ہے، اس صورت میں متاثرہ خاتون کی رہائی کی کیا صورت بن سکتی ہے؟ جس سے خاتون بھی آزاد ہو اور گناہ سے بھی بچتی رہے۔اس کے ساتھ جانے سے عزت اور دین دونوں کو خطرہ ہے۔

جواب

واضح رہے کہ اگر لڑکی نے  ولی کی اجازت کے بغیر    غیر کفو میں نکاح کیا   تو   لڑکی کے اولیاء کو  اس کی اولاد ہونے سے پہلے پہلے عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اگر نکاح کے بعد اس لڑکی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوجائے تو پھر اولیاء کو فسخِ نکاح کا اختیار نہیں ہوتا۔ کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین،دیانت، نسب، پیشہ ، مال اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو۔ صرف خاندان الگ ہونے کی وجہ سے غیر کفو نہیں ہوتا۔ اسی طرح محض عمر کا تفاوت بھی کفو کے منافی نہیں۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں اگر  مذکورہ لڑکی نے چھپ کر والد  کی اجازت کے بغیر غیر کفو  میں نکاح کیا ہے تب بھی یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے(بشرطیکہ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیاہو)، البتہ  اگر اس کا شوہر اس کے لیے واقعۃً  کفو نہیں،تو اس صورت   میں لڑکی کے ولی (والد) کو اس نکاح پر اعتراض کر نے اور اولاد ہونے سے پہلے پہلےعدالت میں تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کر کے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار  ہوگا۔ بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول، سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر، غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".

 (2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق، ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي، أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما".

(1/ 292، کتاب النکاح، الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505101767

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں