بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خود كشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم


سوال

خود كشي کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ خودکشی گناہِ کبیرہ اور  بڑا جرم ہے،خود کشی کرنے والا فاسق ہے، لیکن کافر نہیں،لہذا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی،البتہ اگر کوئی ایسا شخص جو ذہنی مریض ہو یا ڈپریشن کا شکار ہو ،اور اس سے اس طرح کا عمل صادر ہوجائے،تووہ اس سے  مستثنیٰ ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  خود كشي کرنے والے شخص  کی نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں، البتہ علماء اور پیشوا حضرات کو جنازہ میں شرکت نہیں کرنی چاہیے،  تاکہ دیگر لوگوں کے دلوں میں اس فعل سے نفرت پیدا ہو،صحیح مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک ایسے شخص  کا جنازہ لایا گیا جس نے خودکشی  کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی،  لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(من قتل نفسه) ولو (عمدا يغسل ويصلى عليه) به يفتى وإن كان أعظم وزرا من قاتل غيره. ورجح الكمال قول الثاني بما في مسلم «أنه عليه الصلاة والسلام أتي برجل قتل نفسه فلم يصل عليه».

(قوله به يفتى) لأنه فاسق غير ساع في الأرض بالفساد، وإن كان باغيا على نفسه كسائر فساق المسلمين زيلعي (قوله: ورجح الكمال قول الثاني إلخ) أي قول أبي يوسف: إنه يغسل، ولا يصلى عليه إسماعيل عن خزانة الفتاوى. وفي القهستاني والكفاية وغيرهما عن الإمام السعدي: الأصح عندي أنه لا يصلى عليه لأنه لا توبة له. قال في البحر: فقد اختلف التصحيح، لكن تأيد الثاني بالحديث. اهـ أقول: قد يقال: لا دلالة في الحديث على ذلك لأنه ليس فيه سوى «أنه عليه الصلاة والسلام لم يصل عليه» فالظاهر أنه امتنع زجرا لغيره عن مثل هذا الفعل كما امتنع عن الصلاة على المديون، ولا يلزم من ذلك عدمصلاة أحد عليه من الصحابة؛ إذ لا مساواة بين صلاته وصلاة غيره. قال تعالى {إن صلاتك سكن لهم} [التوبة: 103] ثم رأيت في شرح المنية بحثا كذلك."

(‌‌كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:211، ط: سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"ويرى الحنفية أن ‌من ‌قتل ‌نفسه ‌ولو ‌عمدا ‌يغسل ‌ويصلى ‌عليه، به يفتى وإن كان أعظم وزرا من قاتل غيره."

(‌‌جنائز، ‌‌من يصلى عليه ومن لا يصلى عليه، ج:16، ص:37، ط: دارالسلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101410

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں