بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خدا کی قسم! اب اگر کسی نے لطیفہ سنایا تو اُس کی بیوی کو طلاق، کہنے والے شخص نے خود ہی لطیفہ سنا دیا تو کیا حکم ہے؟


سوال

چند دوست رات کو باہر بیٹھے گپے ہانک رہے تھے، اور ایک دوسرے کو لطیفے سنا رہے تھے اور بہت زیادہ ہنس رہے تھے، اور لوٹ پوٹ ہورہے تھے، بالآخر ایک دوست نے کہا کہ  "خدا کی قسم! اب اگر کسی نے لطیفہ سنایا تو اس کی بیوی کو طلاق"،  اس کے بعد سب خاموش ہوگئے اور پھر ادھر اُدھر کی سنجیدہ باتیں کرنے لگے، پھر تھوڑی دیر بعد اُسی دوست نے جس نے قسم دی تھی، ایک لطیفہ شروع کردیا اور سب کو ہنسایا، تو اس کے دوست نے یاد دلایا کہ تو نے تو ابھی یہ الفاظ بولے تھے کہ جو لطیفہ  سنائے اُس کی بیوی پر  طلاق؟ تو وہ بولا کہ کچھ نہیں  ہوتا۔

اب آپ بتائیں کہ اس کی بیوی پر  طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اور ہوئی تو کتنی؟ اور اس کا کیا حل ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس شخص نے یہ الفاظ کہے کہ "خدا کی قسم! اب اگر کسی نے لطیفہ سنایا تو اس کی بیوی کو طلاق"، اور پھر مذکورہ شخص نے ہی کچھ دیر بعد لطیفہ سنا دیا، تو اُس کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی، اب اگر عدت (حمل نہ ہونے کی صورت میں مکمل تین ماہواریاں اور حمل ہونے کی صورت میں بچے کی پیدائش تک) کے دوران اُس شخص نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا، تو اُس کا نکاح برقرار رہے گا، ورنہ عدت گزرنے کے بعد نکاح ختم ہوجائے گا اور بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، تاہم اگر عدت گزرنے کے بعد میاں بیوی دوبارہ گھر بسانا چاہیں تو نیا مہر مقررکرکے شرعی گواہوں کے سامنے نئے سرے سے ایجاب وقبول کرکے تجدیدِ نکاح کرنا ہوگا، نیز رجوع یا تجدیدِ نکاح کی صورت میں آئندہ شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا، کبھی یہ دوطلاقیں بھی اپنی بیوی کو دے دیں تو بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"‌جماعة ‌كانوا ‌يتحدثون في مجلس فقال رجل منهم من تكلم بعد هذا فامرأته طالق ثم تكلم الحالف طلقت امرأته، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الأيمان، الباب السادس في اليمين على الكلام، ٢/ ١٠٢، ط: دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"جماعة يتحدثون في مجلس فقال رجل منهم: من تكلم بعد هذا فامرأته طالق ثم تكلم الحالف طلقت امرأته لأن كلمة من للتعميم والحالف لا يخرج نفسه عن اليمين فيحنث.

وفي الرد: (قوله ثم تكلم الحالف) سكت عما إذا تكلم غيره والظاهر أنه لا يقع لأن تعليق المتكلم لا يسري حكمه إلى غيره إلا إذا قال الغير وأنا كذلك مثلا، وأما الفرعان السابقان فجعلا من الإقرار لا الإنشاء والتعليق إنشاء ط ... (قوله والحالف لا يخرج نفسه عن اليمين) أشار بهذا إلى أن دخول الحالف هنا عموم كلامه لقرينة إن قلنا إن المتكلم لا يدخل في عموم كلامه. وفي التحرير أن دخوله قول الجمهور، والله تعالى أعلم."

(كتاب الطلاق، ‌‌باب طلاق غير المدخول بها، ٣/ ٢٩٥، ط: سعيد)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلی الشرط وقع عقیب الشرط اتفاقًا مثل أن یقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(كتاب الطلاق،  الباب الرابع في الطلاق بالشرط ونحوه، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما،  ١ / ٤٢٠،  ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان حكم الطلاق فحكم الطلاق يختلف باختلاف الطلاق من الرجعي، والبائن، ويتعلق بكل واحد منهما أحكام بعضها أصلي، وبعضها من التوابع، أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا."

 

(كتاب الطلاق، فصل في بيان حكم الطلاق. ٣ / ١٨٠، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه) (وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه) ... (و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية ... (وضع) جميع (حملها)."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ٣/ ٥٠٥، ٥١١، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100386

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں