بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خود روگھاس میں عشر کا حکم


سوال

 سوال یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں بنجر زمین میں خود رو گھاس اگتا ہے، جس کی سیرابی بارش سے ہوتی ہے ،مالک زمین صرف اس کی حفاظت کرتا ہے، باقی کچھ نہیں کرتا ہے، اور یہ گھاس قابل انتفاع ہے، دریوں  اور چٹائیوں  وغیرہ  میں استعمال ہوتی ہے، اور بازاروں میں بکتی بھی ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ   اس  گھاس پر عشر واجب ہے یا نہیں ؟اور اگر واجب ہے تو مالک زمین اگر اس گھاس  کوکسی  کو ہبہ کرتا ہے   یا صدقہ کے طور پر دے تو عشر کس پر واجب ہوگا مالک زمین پر یا موہوب لہ پر ؟

جواب

واضح رہے کہ عشر زمین کی ہر اس پیداوار میں واجب ہے جو مقصود ہو چاہے ،اس کی کاشت کی جائے یا از خود پیدا ہو جائے چونکہ خود رو گھاس عموما مقصود اصلی نہیں ہوتا ،اس لیے اس میں عشر واجب نہیں، لیکن جب اس کی حفاظت کی جائے اس کو بروقت پانی دیا جائے اور اس دوسروں کو اس سے منع کیا جائے تو پھر اس صورت میں وہ گھاس مقصودی ہو جاتا ہے،اس پر عشر واجب ہو تاہے ۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں  چوں کہ مذکورہ گھاس خود بخود  اگتی ہے ،لیکن اس کی حفاظت کی جاتی ہے ،اور دوسروں کو اس کے کاٹنے سے منع کیا جاتاہے ،اور یہ قابلِ انتفاع بھی ہے ،اس لیے اس پر عشر واجب ہے ،اور اگر مالک نے  عشر نکالنے سے پہلے   اس کو اپنی زمین سے کاٹ کر ہبہ یا صدقہ کر دیا ،تو عشر بھی اسی پر لازم ہو گا ،جس کو ہبہ یا صدقہ کیا گیا ہے ۔

فتاویٰ حقانیہ میں ہے :

"الجواب:"

"عشر زمین کی ہر اس پیداوار میں واجب ہے جو مقصود ہو چاہے ،اس کی کاشت کی جائے یا از خود پیدا ہو جائے چونکہ خود رو گھاس عموما مقصود اصلی نہیں ہوتا ،اس لیے اس میں عشر واجب نہیں لیکن جب اس کی حفاظت کی جائے اس کو بروقت پانی دیا جائے اور اس دوسروں کو اس سے منع کیا جائے تو پھر اس صورت میں وہ گھاس مقصودی ہو جاتا ہے لہذا صورت مسئولہ کے مطابق اگر واقعی اس قسم کی گھاس کے لیے زمین مخصوص کر کے اس میں گھاس کی نشوونما کی جاتی ہو تو پھر اس میں عشر واجب ہے بصورت دیگر کوئی عشر نہیں ۔"

(کتاب الزکاۃ،ج:3،ص:601،ط:اکوڑہ خٹک صوابی)

فتاویٰ دارالعلوم زکریا میں ہے :

"صورتِ مسئولہ میں خود رو گھاس پر عشر نہیں البتہ اگر کسی نے گھاس مقصود بنا لیا ہو اور زمین کو اسی کے لیے خاص کر دیا ہو تو عشر واجب ہوگا ۔"

(کتاب الزکاۃ،ج:3،ص:159 ،ط:زمزم)

فتاویٰ شامی میں  ہے :

"(إلا فيهما) لا يقصد به ‌استغلال ‌الأرض (نحو حطب وقصب) فارسي (وحشيش) وتبن وسعف وصمغ وقطران وخطمي وأشنان وشجر قطن وباذنجان وبزر بطيخ وقثاء وأدوية كحلبة وشونيز حتى لو أشغل أرضه بها يجب العشر."

(كتاب الزكاة،باب العشر،3،ص:327،ط:سعيد)

تبیین الحقائق میں ہے:

"وخراج إن اشترى ذمي أرضا عشرية من مسلم) أي يجب الخراج إن اشترى ذمي غير تغلبي أرضا عشرية من مسلم...أن في العشر معنى العبادة والكفر ينافيها."

(كتاب الزكوة،باب العشر،ج:1،ص:295،ط:المطبة الكبرى الأميريه)

درر الحکام میں ہے:

"إن الغرم بالغنم."

(الکتاب العاشر: الشرکات، الباب الخامس فی بیان النفقات المشترکة، ج: 3، ص: 310، ط: دار الجیل)

الدر المختارميں ہے:

"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) .... وفي الأشباه: هبة المشغول لا تجوز."

(الدر المختار مع رد المحتار:  كتاب الهبة، 5/ 691،688  ط:  سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144508100567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں