بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا خود کشی کرنے والے کے لیے دعائے مغفرت جائز ہے؟ / خود کشی کرنے والے کے لیے ایصالِ ثواب کا حکم


سوال

پریشانی میں اگر کسی نے خودکشی کرلی ہو ٗ اس کے لیے عمرہ کرسکتے ہیں؟ اور کیا وہ کبھی جنت میں جائے گا؟ اس کے لیے ہم کیا دعا کریں جو اس کے لیے بہتر سے بہتر ہو؟

جواب

واضح رہے کہ اپنی جان لینا دوسرے کسی کی جان لینے سے بھی زیادہ بدترین گناہ ہے، اور اس پر شدید ترین وعیدیں وارد ہیں، البتہ فقہاء کی تصریحات کے مطابق ایسا شخص فاسق ضرور ہے لیکن کافر نہیں ہے، لہذا جس طرح عام مسلمانوں کے لیے مختلف طریقوں سے ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے، اسی طرح خود کشی کرنے والے کے لیے بھی عمرہ یا دیگر طریقوں سے ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے۔

اسی طرح جس طرح دیگر صاحبِ اسلام اہلِ معاصی کو اللہ تعالیٰ اپنی منشأ کے مطابق جب چاہیں گے ٗ جنت میں داخل فرمائیں گے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ خود کشی کرنے والے کو بھی جنت میں داخل فرمادیں گے، نیز اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا بھی جائز ہے۔

﴿شرح النووي على صحيح مسلم﴾   میں ہے:

"أما أحكام الحديث ففيه حجة لقاعدة عظيمة لأهل السنة أن من قتل نفسه أو ارتكب معصية غيرها ومات من غير توبة فليس بكافر ولا يقطع له بالنار بل هو في حكم المشيئة وقد تقدم بيان القاعدة وتقريرها وهذا الحديث شرح للأحاديث التي قبله الموهم ظاهرها تخليد قاتل النفس وغيره من أصحاب الكبائر في النار وفيه إثبات عقوبة بعض أصحاب المعاصي فإن هذا عوقب في يديه ففيه رد على المرجئة القائلين بأن المعاصي لا تضر والله أعلم."

(کتاب الإيمان، باب الدليل على أن قاتل نفسه لا يكفر، ج: ٢، ص: ١٣١، ط: دار إحياء التراث)

﴿البحر الرائق﴾   میں ہے:

"رجلان أحدهما ‌قتل ‌نفسه والآخر قتل غيره كان قاتل نفسه أعظم وزرا وإثما. اهـ."

(کتاب الصلاۃ، باب الشهيد، ج: ٢، ص: ٢١٥، ط: دار الكتاب الإسلامي)

﴿الفتاوي الهندية﴾   میں ہے:

"من ‌قتل ‌نفسه كان إثمه أكثر من أن يقتل غيره كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الحادي والعشرون، ج: ٥، ص: ٣٦١، ط: رشيدية)

﴿رد المحتار علی الدر المختار﴾   میں ہے:

"(من قتل نفسه) ولو (عمدا يغسل ويصلى عليه) به يفتى وإن كان أعظم وزرا من قاتل غيره.

(قوله به يفتى) لأنه فاسق غير ساع في الأرض بالفساد، وإن كان باغيا على نفسه كسائر فساق المسلمين زيلعي."

(کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج: ٢، ص: ٢١١، ط: سعيد)

﴿امداد الفتاویٰ﴾ میں ہے:

’’سوال (۲۹۵۳): قدیم ۴/ ۶۰۷ - کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین صورت مسئولہ میں کہ ایک شخص نے عمداً اپنے نفس کو بذریعہ بندوق ضائع کردیا اور مرحوم مرگیا جس کا پوسٹ مارٹم ہونے کے بعد دفن ہوا۔۔۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ عذاب میں مبتلا ہوگا جس کی تلافی کے لیے بقیہ پس ماندگان کو کوئی شکل بتلائی جاوے کہ اس کو اختیار کرنے سے اس کے عذاب میں تخفیف ہو؟

الجواب : بیشک ان آیات میں اس فعل کا معصیتِ شدیدہ اور موجبِ وعید ہونا منصوص ہے، لیکن دوسری نصوص میں جمیع مؤمنین کے لیے (جن میں باطلاق الفاظ تمام اہل معاصی و مستحقین و عید بھی داخل ہیں ) دعائے مغفرت کی ترغیب بھی ( جو کہ عقلاً وسمعا مستلزم ہے اس کی نافعیت کو ) وارد ہے۔۔۔ اور احادیث معتضده باجماع الامۃ فی ہذا الباب شامله للدعا وسائر اعمال الثواب کا تو احصار ممکن نہیں، بہر حال جس طرح جمیع اموات مسلمین کے لیے ایصال ثواب کے طریق مثلِ دعا واستغفار وتہلیل وتسبیح وصدقات وخیرات ونوافل وتلاوت وغیرہا تخفیف عذاب بلکہ رفع عذاب میں نافع ہوتے ہیں، اسی طرح قاتلِ نفس کے لیے بھی، اور ان سب میں زیادہ نافع بلا کسی قسم کے اختلاف کے دو عمل ہیں: ایک دُعائے مغفرت دوسرا صدقہ مالیہ۔ واللہ اعلم۔‘‘

(تحت رسالۂ احکام الایقان، ج: ۱۰، ص: ۴۴۶، ط: مکتبہ زکریا)

فقط واللہ تعالیٰ اعلم


فتوی نمبر : 144603102380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں