بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خود کو حسین رضی اللہ عنہ اور اپنے بڑوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کہلوانے والے پیر کا حکم


سوال

ایک شخص پیری مریدی کے چکر میں اپنے آپ کو حسین رضی اللہ عنہ اور اپنے بڑوں کو  حضرت علی رضی اللہ عنہ کہلواتا ہے اور  اس کے مرید اس پر اعتقاد رکھتے ہیں، ایسے شخص اور اس کے پیروکاروں کے متعلق کیا حکم ہے؟

جواب

بہتر تھا کہ مذکورہ شخص کا بیان مکمل سیاق و سباق کے ساتھ باحوالہ (ثبوت کے ساتھ) پیش کیا جاتا، تاکہ اس کا واضح اور متعینہ جواب دیا جاتا، ممکن ہے اس نے کسی موقع پر خود کو کسی جزوی واقعے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے اور اپنے بڑوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تشبیہ دی ہو، تاہم  اگر  سائل کا بیان واقعے کے مطابق ہے اور وہ شخص خود کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ  اور  اپنے بڑوں کو  حضرت علی رضی اللہ عنہ کہلواتا ہو  تو وہ گم راہ  ہے اور  جو لوگ اس  کی بات پر یقین کرکے اس بات کا اعتقاد  رکھیں وہ بھی گم راہ  ہیں، ایسے شخص سے بیعت کرنا یا اصلاح کا تعلق رکھنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ بیعت اور اصلاحی تعلق کا مقصد رشد  و  ہدایت اور اصلاحِ  نفس ہے، اس لیے کسی شخص سے بیعت ہونے اور اصلاحی تعلق قائم کرنے کے  لیے ضروری ہے کہ اس شخص کے عقائد اہلِ سنت و الجماعت کے مطابق اور اعمال سنت کے مطابق ہونے کے ساتھ  ساتھ اس  شخص میں مندرجہ ذیل صفات بھی موجود ہوں:

  1. کتاب و سنت کا ضروری علم رکھتا ہو خواہ  پڑھ کر یا علماء سے سن کر۔

  2. عدالت و تقوی میں پختہ ہو، کبائر سے اجتناب کرتا ہو، صغائر پر مصر  نہ ہو۔

  3.  دنیا سے بے رغبت ہو (حبِ مال و حبِ  جاہ  سے  خالی ہو)، آخرت میں رغبت رکھتاہو، طاعاتِ مؤکدہ و اذکارِ  منقولہ کا پابند ہو۔

  4.  نیکیوں کا حکم کرتا ہو، برائیوں سے روکتا ہو۔

  5.  سلوک، تزکیۂ باطن کو معتبر مشائخ سے حاصل کیا ہو، اور ان کی صحبت میں طویل عرصہ رہا ہو۔

لہٰذا جس شخص کے عقائد اہلِ  سنت و الجماعت کے خلاف ہوں یا اس کے اعمال سنت کے خلاف ہوں یا مندرجہ بالا شرائط اس میں موجود نہ ہوں تو اس سے بیعت کرنا اور اصلاحی تعلق قائم کرنا باعثِ  گم راہی  ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔

تلازم الشریعة  و الطریقة میں ہے:

"فشرط من ياخذ البيعة أمور، أحدها: علم الكتاب والسنة... والشرط الثاني: العدالة والتقوى، فيجب أن يكون مجتنبًا عن الكبائر غير مصر علي الصغائر... والشرط الثالث: أن يكون زاهدًا في الدنيا راغبًا في الاخرة، مواظبًا على الطاعات المؤكدة والأذكار المأثورة... والشرط الرابع: أن يكون آمرًا بالمعروف ناهيًا عن المنكر... والشرط الخامس: أن يكون صحب المشائخ وتأدب بهم دهرًا طويلًا وأخذ منهم النور الباطن والسكينة".

(ص؛130، از  شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی رحمہ اللہ، ط:مکتبہ حرمین، دبئی)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں