بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خطبہ کی اذان کتنی بلندآواز سےدینےچاہیے؟


سوال

 خطبہ کی اذان مختصر دینا چاہیے یا مثلِ اول جیسی بلند آواز سے، طویل کرکےبھی دے سکتے ہیں   ؟

جواب

واضح رہےکہ جمعہ کی دوسری اذان(جوکہ خطبہ سےپہلے اور خطیب کے سامنے دی جاتی ہے) اقامت کی طرح ہے،جس کا مقصد حاضرینِ مسجد کو اطلاع دیناہوتا ہے، کہ اب خطبہ شروع ہونےوالاہے، جمعہ کےخطبہ کے لیے تیار ہو جائیں، نوافل، تسبیحات، تلاوت وغیرہ موقوف کر دیں، لہذا یہ اذان خطیب کے سامنے نمازیوں کی تعداد کو مد ِنظر رکھتے ہوئےاتنی بلندآوازسےدی جانی چاہیے کہ سب نمازیوں تک آواز پہنچ جائے۔

"فتح الباري بشرح صحيح البخاري"میں ہے:

"قال المهلب :الحكمة في جعل الأذان في هذا المحل ‌ليعرف ‌الناس ‌بجلوس ‌الإمام على المنبر فينصتون له إذا خطب."

(باب آذان يوم الجمعة، 394/2، ط: دار المعرفة بيروت)

"السعاية" میں ہے:

"لغز: أي آذان لا یستحب رفع الصوت فیه؟ قل: هو الأذان الثاني بین یدی الخطیب؛ لأنه کالإقامة لإعلام الحاضرین، صرح به جماعة من الفقهاء".

(باب الأذان، 38/2، ط: سهيل اكيدمي)

"الموسوعة الفقهية"میں ہے:

"وللجمعة أذانان، أولهما عند دخول الوقت، وهو الذي يؤتى به من خارج المسجد - على المئذنة ونحوها - وقد أمر به سيدنا عثمان رضي الله عنه حين كثر الناس.

والثاني وهو الذي يؤتى به إذا صعد الإمام على المنبر، ويكون داخل المسجد بين يدي الخطيب، وهذا هو الذي كان في عهد النبي صلى الله عليه وسلم وعهد أبي بكر وعمر حتى أحدث عثمان ‌الأذان ‌الثاني."

(دخول وقت الصلاة، 363/2، ط: دارالسلاسل كويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں