بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن خواب کی تعبیر بتلانے پر اجرت وصول کرنے کا حکم


سوال

جس شخص نے خواب کی تعبیر کا علم حاصل کیا ہو، وہ خوابوں کی تعبیر بتانے کا آن لائن کاروبار شروع کرکے اس عمل پر پیسے وصول کرے  تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

ابتداءً یہ بات واضح ہو کہ خواب کی تعبیر کا علم اللہ کی طرف سے عطا کردہ خاص علم ہے،انسان کی ذاتی محنت اور کسب کو اس کے حصول میں کوئی دخل نہیں  کہ سیکھنے سے یہ علم حاصل ہوجاۓ،چناں چہ سورۃ یوسف میں اس علم کو فیضانِ خداوندی کہہ کراللہ کا خاص عطیہ بتلا یا گیا ہے ،جو کسی کسی کو عطا ہوتا ہے، قرآن کریم میں یعقوب علیہ السلام کا  اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام سےیہ ارشاد  منقول ہے:

"‌وَكَذلِكَ ‌يَجْتَبِيكَ ‌رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ."(یوسف:6)

ترجمہ:اور اسی طرح برگزیدہ کرے گا تجھ کو تیرا رب اور سکھلائے گا تجھ کو ٹھکانے پر لگانا باتوں کا اور پورا کرے گا اپنا انعام تجھ پر ."(بیان القرآن)

دوسری جگہ یوسف  علیہ السلام کا ارشاد  نقل کیا گیاہے:

"‌ذلِكُما ‌مِمَّا ‌عَلَّمَنِي ‌رَبِّي."(یوسف:37)

ترجمہ:"یہ علم ہے کہ مجھ کو سکھایا میرے رب نے ."

معارف القرآن میں ہے:

"دوسرے وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ اس میں احادیث سے مراد لوگوں کے خواب ہیں معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تعبیر خواب کا علم سکھا دیں گے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعبیر خواب ایک مستقل فن ہے جو اللہ تعالیٰ کسی کسی کو عطا فرما دیتے ہیں ہر شخص اس کا اہل نہیں ."

(سورۃ یوسف،ج:5، ص:15، ط:ادارۃ المعارف کراچی)

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں جس کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے خواب کی تعبیرکا علم عطافرمایا ہو اس شخص کے لیے درج ذیل وجوہات کی بناء پر خواب کی تعبیر پر اجرت وصول کرنا  اور اس کو کمائی کا ذریعہ بنالینا شرعاً جائز نہیں ہے:

٭شرعاً جس منفعت کے بدلے اجرت وصول کی جارہی ہو اس منفعت کامعلوم و متعین ہونا ضروری ہے ،جب کہ خواب   کی تعبیر محض ظن اور تخمین  ہے ، جس کا  یقینی   علم خود بتانے والے کو بھی نہیں ہوتا،کیوں کہ وہبی علم ہونے کی وجہ سے تعبیر رؤیا کے لیےکوئی ایسے اصول و قوانین موجودنہیں ہیں کہ جن کے استعمال  سےخوابوں  کی یقینی تعبیر بتلائی جاسکے۔یہی وجہ ہے کہ کبھی  تعبیر کاوقوع صحیح ہوتا ہے اور کبھی نہیں، تو چوں کہ  امورِ ظنیہ ،جن کا وقوع یقینی نہ ہو ،اور ان کی  منفعت  بھی غیر معلوم و متعین ہو ،ان کے بدلے اجرت وصول کرنا درست نہیں ہے اور خواب کی تعبیر بھی اسی میں داخل ہے اس لیے  شرعاً تعبیر پر اجرت وصول نہیں کی جاسکتی۔

٭ بسا اوقات تعبیر کا وقوع ہی نہیں ہوتا،ایسی صورت میں غیر موجود  منفعت پر اجرت وصول کرنا لازم آۓ گا،جو کہ ناجائز ہے۔

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"‌‌ويشترط لانعقاد الإجارة على المنفعة شروط هي ...ثانيا: أن تكون المنفعة متقومة مقصودة الاستيفاء بالعقد، فلا تنعقد اتفاقا على ما هو مباح بدون ثمن لأن إنفاق المال في ذلك سفه ... خامسا: ويشترط فيها أيضا لصحة الإجارة: أن تكون معلومة علما ينفي الجهالة المفضية للنزاع. وهذا الشرط يجب تحققه في الأجرة أيضا؛ لأن الجهالة في كل منهما تفضي إلى النزاع. وهذا موضع اتفاق."

(إجارة، الفصل الثاني: ‌‌أركان عقد الإجارة، 259،260/1،  ط:وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - کویت)

  ٭ کبھی  خواب رحمانی الہامات کے بجاۓ شیطانی تلبیسات پر بھی مشتمل ہوتا ہے اور ایسے خواب کی تعبیر بتانے پر اجرت وصول کرنا گویا کہانت پر اجرت وصول کرنا کہلاۓ گا جو شرعاً ناجائز  اور  حرام ہے۔ الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"أجمع الفقهاء على أن التكهن والكهانة بمعنى ادعاء علم الغيب والاكتساب به حرام، كما أجمعوا على أن إتيان الكاهن للسؤال عن عواقب الأمور حرام، وأن التصديق بما يقوله: كفر، لما ورد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: من أتى كاهنا أو عرافا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم ، ونهى عن أكل ما اكتسبه بالكهانة، لأنه سحت، جاء عن طريق غير مشروع، كأجرة البغي، روى أبو مسعود الأنصاري رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب، ومهر البغي، وحلوان الكاهن  "، وهو ما يأخذه على كهانته، وتشمل الكهانة كل ادعاء بعلم الغيب الذي استأثر الله بعلمه، ويشمل اسم الكاهن: كل من يدعي ذلك."

(كهانة، ‌‌الأحكام المتعلقة بالكهانة، 172/35، ط:وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - کویت)

٭ باوجود تلاش  بسیار کےہمارے علم میں نہیں کہ  علماۓ اسلاف میں سے کسی نے اس عمل پر اجرت وصول کی ہو یا اس کو جائز کہا ہو۔نیز یہ ہی قول احتیاط پر مبنی ہے۔

بعض شبہات اور ان کا جواب:

(1)بعض  حضرات نے خواب کی تعبیر بتلانے پر اجرت لینے کے جواز کو  فقہ حنفی کی کتاب  "مجمع الانہر "کی درج ذیل عبارت سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے:

"بخلاف بناء المساجد وأداء الزكاة وكتابة المصحف، والفقه وتعليم الكتابة، والنجوم، والطب، ‌والتعبير، والعلوم الأدبية، فإن أخذ الأجرة في الجميع جائز بالاتفاق."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، 384/2، ط:دار إحياء التراث العربي)

حالاں کہ یہ استدلال درست نہیں  کیوں کہ یہاں تعبیر بتلانے پر اجرت کے جواز کاذکر کرنا مقصود نہیں ہے،بلکہ اس عبارت سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ جیسے دیگر علوم و فنون کے سکھانے اور ان کی تعلیم پر اجرت وصول کی جاسکتی ہے ،بالکل اسی طرح  علم التعبیر  کے اسرار و رموز سکھانے پر بھی اجرت  لی جاسکتی ہے،اس پر دلیل یہ ہے کہ ما قبل میں بھی مختلف علوم و فنون   مثلاً علمِ فقہ،فن ِکتابت ،اورعلمِ نجوم وغیرہ کے سکھاۓ جانے کا تذکرہ کیا گیا ہےاور  تعبیر بتلانے پر اجرت لینے اور تعبیر کےاسرار و رموز سکھانے پر اجرت لینے میں واضح فرق ہے۔

اس بات کی مزید  وضاحت اور تائید" فتاوی عالمگیری "کی عبارت سے ہوتی ہے،جس میں اس بات کی صراحت  کی گئی ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنے بچے کو فنِ کتابت یاعلمِ نجوم یافنِ طب یاعلم التعبیر کی تعلیم سکھانے کے واسطے معلم اجرت پر مقرر کیا تو   ایسا کرنا بالاتفاق جائز ہے  ۔

چناں چہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو استأجر ‌لتعليم ‌ولده ‌الكتابة أو النجوم أو الطب أو التعبير جاز بالاتفاق."

(كتاب الإجارة، الباب السادس عشر في مسائل الشيوع في الإجارة، 448/4، ط: رشيدية)

(2) تعبیر پر اجرت لینے کو  آیاتِ قرآنیہ و دیگروظائف دم کرکے اجرت لینے کے جواز پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا،کیوں کہ دم کرنا علاج معالجے کے قبیل سے ہے اور علاج معالجے کے بدلے اجرت وصول کرنا بالاتفاق جائز ہے،جب کہ خواب کی تعبیر کا علاج سے کوئی تعلق نہیں۔

(3) اسی طرح بعض حضرات کی جانب سے تعبیر پر اجرت وصول کرنے کو فتویٰ پر قیاس کرکے جائز کہا گیا ہے،لیکن یہ  قیاس مع الفارق ہے،کیوں کہ فتوی  خالصتاً امرِ شرعی ہےجب کہ خواب کا تعلق شریعت سے بالکل نہیں ہے ،بلکہ اس کا تعلق صرف مبشرات سے ہے۔فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں