میری بیوی نے کہااگر آپ نے مجھ پر بدکاری کا الزام لگایاتومیں کورٹ سے خلع لےلوں گی تومیں نے کہالےلینا ، پھر کہااگر آپ نے مجھ پر الزام لگایا تومیں خلع لےلوں گی ، تو میں نے کہا لےلینا، اب اگر الزام ثابت ہوجاۓ اور بیوی کورٹ سے خلع لے لے تو کیا خلع واقع ہوجائے گی؟ جب کہ شوہر کورٹ توجاۓ لیکن جج کے سامنے نہ اقرار کرے نہ دستخط کرے اور بیوی کو کورٹ جانے سے پہلے کہہ دے تم کو خلع کی اجازت نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ خلع مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین (میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے،اور جس خلع میں میاں بیوی دونوں کی رضامندی شامل ہو توایسا خلع شرعاً معتبر ہوتاہے۔
صورتِ مسئولہ میں جب شوہربیوی کو کورٹ جانے سے پہلے کہ دے کہہ تم کو خلع کی اجازت نہیں ہے ، تواس صورت میں اگربیوی کورٹ سےیکطرفہ خلع لےتووہ شرعامعتبرنہیں ہوگی،نکاح بدستورباقی رہےگا۔
”بدائع الصنائع “ میں ہے:
"وأما ركنه: فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول".
( فصل فی حکم الخلع،ج:3، ص:145، ط :سعید)
فتاوی شامی میں ہے :
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده."
(باب الخلع، ج:3، ص: 440، ط:دار الفكر-بيروت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603102906
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن