بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدار(رب السلم)کےلیے راس المال سے زیادہ پیسے وصول کرنا شرعاً جائز نہیں ہے


سوال

ایک شخص نے دوسرے شخص کےساتھ کپاس کی بیع سلم کی ہے،اورخریدار(رب السلم)نےایڈوانس پیسےدیے ہیں،اب اس شخص(مسلم الیہ)کے پاس کپاس نہیں ہے،توکیا(مسلم الیہ)سےموجودہ ریٹ كےحساب سے رقم واپس لی جاسکتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں خریدار(رب السلم)کےليےاپنی دی ہوئی رقم کوموجود ریٹ کےحساب سے لیناشرعاًجائز نہیں ہے بلکہ بیع سلم کرتےوقت جتنےپیسےادا کیے تھےاتنےہی پیسےوصول کرنےکامستحق ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو انقطع بعد الإستحقاق ‌خير ‌رب ‌السلم بين انتظار وجوده والفسخ وأخذ رأس ماله."

(كتاب البيوع، ‌‌باب السلم، ج:5، ص:212، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(ولا يجوز التصرف) للمسلم إليه (في رأس المال و) لا لرب السلم في (المسلم فيه قبل قبضه بنحو بيع وشركة) ومرابحة (وتولية)ولو ممن عليه ....لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا تأخذ إلا سلمك أو رأس مالك» ) أي إلا سلمك حال قيام العقد أو رأس مالك حال انفساخه فامتنع الاستبدال."

(كتاب البيوع، ‌‌باب السلم، ج:5، ص:219، ط: سعيد)

المحیط البرہانی میں ہے:

"لقوله عليه السلام: «‌لا ‌تأخذ ‌إلا ‌سلمك أو رأس مالك» والمراد المسلم فيه حال بقاء العقد، ورأس مال السلم بعد انفساخه، ولأن المسلم فيه مبيع وإنه دين، واستبدال المبيع بالعين قبل القبض لا يجوز مع أن العين أقبل للتصرف من الدين، فلأن لا يجوز بالمبيع بالدين أولى."

(‌‌كتاب البيع، ‌‌الفصل الثاني والعشرون: في السلم، ج:7، ص:96، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبندمیں ہے:

سوال:زیدنےعمرکومبلغ سوروپیہ بیع سلم کےواسطےدیاتھا،یعنی سوروپےکےپچیس من گندم ٹھہرےتھے،اب گندم پیدانہ ہونےکی وجہ سےگندم وصول نہیں ہوسکتےتواس وقت زیدپچیس من گندم کی قیمت لےسکتاہےیاصرف سوروپیہ؟اوراگرسرکار سوروپیہ سےزیادہ لادےتوجب بھی لینادرست ہےیانہیں؟

الجواب:اگرگندم وصول نہیں ہوسکتےتوجوروپیہ دیاتھااسی قدرواپس لیناچائیے،یعنی سوروپیہ لیناچائیے،یہ نہیں کہ پچیس من گندم کی قیمت لی جائے،اگرچہ وہ زیادہ ہو،بیع سلم کابصورت نہ ملنےکےمبیع کایہی حکم ہے،اوراگرسرکارسوروپیہ سےزیادہ دلوادےتواس کویعنی زیادہ کوواپس کردے،یعنی بعد میں مالک کودیدےتاکہ مؤاخذہ اخروی سےبری رہے۔

(زیرعنوان:مسلم فیہ وصول نہ ہوسکےتورب السلم کیاکرے؟،بیع سلم کابیان، ج:14، ص:433، ط:دارالاشاعت اُردوبازارکراچی)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

سوال:ایک شخص نے بیع سلم ایک روپیہ فی کاسہ کےحساب سےکی ،اب وقت معین پرمبیع کےاداکرنےپربوجہ افلاس کےقادرنہیں،تورب السلم اس دوروپےفی کاسہ ثمن وصول کرناچائتاہے،کیاشرعاًاس کےلیےیہ فعل جائزہے؟

الجواب ومنہ الصدق والصواب:مدت معینہ تک اگر مسلم الیہ مسلم فیہ ادانہ کرسکاتواس کےعوض کوئی دوسری چیز لینایاثمن سےزیادہ لیناجائز نہیں،لہٰذامشتری کوچائیے کہ یسر تک بائع کومہلت دےیااپناثمن واپس لےلے،بائع کی رضاسےبھی استبدال یاثمن سےزائد لیناجائزنہیں۔

(زیرعنوان:مسلم فیہ دینےسےعجز کاحکم، کتاب البیوع، ج:6، ص:481، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100628

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں