بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خراجی زمین اور خراج کی مقدار کا بیان


سوال

 خراجی زمین کون سی زمین ہے، اور زمین میں خراج کتنا ہوتا ہے؟

جواب

خراج  اسلامی حکومت کی طرف سے زمینوں پر عائد ٹیکس کو کہتے ہیں، خراجی زمینوں کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً مسلمانوں نے کفار کی زمین فتح کر کے وہیں والوں کو احسان کے طور پر واپس دی یا دوسرے کافروں کو دے دی، یا وہ ملک صلح کے طور پر فتح کیا گیا، یا ذمّی نے مسلمان سے عشری زمین خرید لی، یا خراجی زمین مسلمان نے خریدی، یا ذمّی نے بادشاہِ اسلام کے حکم سے بنجرکو آباد کیا، یا بنجر زمین ذمّی کو دے دی گئی، یا اسے مسلمان نے آباد کیا ،اور وہ خراجی زمین کے پاس تھی یا اسے خراجی پانی سے سیراب کیا، ان تمام صورتوں میں مذکورہ زمینوں پر خراج آئےگا، اور یہ زمینیں خراجی زمینیں کہلائےگی۔

خراجی زمینوں پر  خراج کی دو قسم ہے:

(1) خراجِ مقاسمہ: یعنی کہ اسلامی حکومت کی طرف سےمذکورہ زمینوں سے نکلنے والا پیداوار کا کوئی حصہ مثلاً آدھا یا تہائی یا چوتھائی حصہ مقرر ہو، جیسے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں رہنے والے یہودیوں کی زمینوں پر مقرر کیا تھا۔

(2) خراجِ مؤظف: یعنی  کہ اسلامی حکومت کی طرف سے ایک مقدار معیّن لازم کر دی جائے خواہ روپے کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو، مثلاً سالانہ دو روپے بیگھہ یا کچھ اور،  جیسے فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے مقرر فرمایا تھا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما خراج المقاسمة فهو أن يفتح الإمام بلدة فيمن على أهلها ويجعل على أراضيهم خراج مقاسمة وهو أن يؤخذ منهم نصف الخارج، أو ثلثه، أو ربعه وإنه جائز لما روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - هكذا فعل لما فتح خيبر ويكون حكم هذا الخراج حكم العشر ويكون ذلك في الخارج كالعشر إلا أنه يوضع موضع الخراج؛ لأنه خراج في الحقيقة والله أعلم".

(کتاب الزکوۃ، بيان المقدار الواجب من الخراج، ج:2، ص:63، ط:دارالفکر)

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار)  میں ہے:

"واستفيد أن الخراج قسمان خراج مقاسمة، وهو ما وضعه الإمام على أرض فتحها ومن على أهلها بها من نصف الخارج أو ثلثه أو ربعه وخراج وظيفة مثل الذي وظفه عمر - رضي الله تعالى عنه - على أرض السواد لكل جريب يبلغه الماء صاع بر أو شعير كما سيأتي تفصيله في الجهاد إن شاء الله تعالى ويأتي هنا بعض أحكامها".

(کتاب الزکوۃ، باب العشر، ج:2، ص:325، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100737

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں