بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خوشی کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرنے کا حکم


سوال

کسی شادی یا بچہ کی پیدائش یا کسی خاص مہمان کی آمد پر  یا کسی اور خوشی کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرنا کیسا ہے، جس میں کسی کا کوئی جانی یا مالی نقصان نہ ہو، نیز بعض لوگ  خوشی کے د ن گزرجانے کے بعد بھی  اسی خوشی کو یاد کرتے ہوئے ہوائی فائرنگ کرتے ہیں، اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ دیناسلام کامل ومکمل دین ہے ، انسانی زندگی سے متعلق تمام گوشوں میں اس کی جامع ہدایات اور رہنما اصول موجود ہیں ، حیاتِ انسانی کے کسی بھی پہلو سے اسلام نے بے توجہی نہیں برتی ہے ، اورنہ ہی اس نے انسانی زندگی کے کسی گوشہ کو تشنہ اور ناتمام رہنے دیا ہے ،خوشی منانا کوئی ممنوع عمل نہیں ہے،یہ انسان کی فطرت کا تقاضہ بھی ہے، لیکن دین فطرت نے اس کی کچھ حدود و قیود طے کی ہیں،مسلمانوں کے ہاں خوشی شکرگزاری کے ساتھ عاجزی اور بندگی کی صورت میں منائی جاتی ہے، جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتحِ مکہ کے موقع پر انتہائی تواضع اختیار فرماکر اُمت کی تربیت فرمائی، اسی طرح اسلام میں کسی کو تکلیف دینے والے طریقے سے خوشی منانے کی اجازت نہیں ہے اور جس طریقے میں جان جانے کا اندیشہ ہو، اس کی تو شدید ممانعت ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں  ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا ہے،الغرض اسلام نے  خوشی اور غم منانے میں امت مسلمہ کی مکمل رہنمائی فرمائی ہے، جو خوشی اسلام کے مزاج کے مطابق ہو، اس کے منانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جس خوشی میں غیروں(کفار) کی مشابہت، کسی کی مالی یا جانی نقصان، اسراف وغیرہ جیسے غیر شرعی امور کا ارتکاب ہو، اس طریقے پر خوشی منانے کو اسلام ممنوع اور ناجائز قرار دیتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  شادی یا بچے کی پیدائش یاکسی خاص مہمان کی آمد پر جو فائرنگ کی جاتی ہے،وہ چوں کہ غیرقانونی بھی ہے اور  اس میں بہت سارے غیر شرعی امور( مثلاً اسراف، وقت کا ضیاع،  لوگوں کو تکلیف وغیرہ)  کے ارتکاب کے ساتھ ساتھ، نہ چاہتے ہوئے بھی یہ طریقہ کسی کی موت  کا سبب بن سکتا ہے(جس کے کئی شواہد موجود ہیں)  اس لیے ایسے  مواقع پر ہوائی فائرنگ کرنا شرعاً درست نہیں، اس سے اجتناب کرنا  ضروری ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"إِنَّ ‌ٱلْمُبَذِّرِينَ كَانُوْا إِخْوَانَ ٱلشَّيَٰطِينِ، وَكَانَ ٱلشَّيْطَٰنُ لِرَبِّهِ كَفُوراً "

(سورۃ الاسریٰ، اٰیت:27)

وفيہ ایضاً:

"مِن أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِيٓ إِسْرَٰٓءِيلَ أَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي ٱلْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا ‌قَتَلَ ‌ٱلنَّاسَ جَمِيْعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَآ أَحْيَا ٱلنَّاسَ جَمِيعًا"

(سورۃ المائدۃ:اٰیت:32)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لايؤمن أحدكم ‌حتى ‌يكون ‌هواه تبعًا لما جئت به»). رواه في (شرح السنة)، و قال النووي في (أربعينه) هذا حديث صحيح، رويناه في كتاب (الحجة).

167 - (وعن عبد الله بن عمرو) : بالواو رضي الله عنهما (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لايؤمن أحدكم ‌حتى ‌يكون ‌هواه)، أي: ميل نفسه سمي به لأنه يهوي صاحبه في الدنيا إلى الداهية، وفي الآخرة إلى الهاوية، فكأنه من هوي يهوي هوى إذا سقط (تبعًا لما جئت به). يجوز أن يحمل هذا على نفي أصل الإيمان، أي: حتى يكون تابعًا مقتديًا لما جئت به من الشرع عن اعتقاد لا عن إكراه وخوف سيف كالمنافقين، و قيل: المراد نفي الكمال، أي: لايكمل إيمان أحدكم حتى يكون ميل نفسه، أي: ما تشتهيه تبعًا لما جئت به من الأحكام الشرعية، فإن وافقها هواه اشتغل بها لشرعيتها لا لأنها هوى، وإن خالفها اجتنب هواه، فحينئذ يكون مؤمنًا كاملًا."

کتاب الایمان،باب الاعتصام بالكتاب والسنة، ج:1، ص:255، رقم:167، ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں