بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خون دینے کی شرعی حیثیت


سوال

خون کا عطیہ دینے کی کیا شرعی طور پر حیثیت ہے؟ کچھ لوگ اپنے خون کو رقم لے کر کسی کو ایک یا دو بوتل دیتے ہیں۔ آیا کہ اپنے جسم سے خون نکال کر اُسے فروخت کرنا درست ہے؟ اور کچھ لوگ ثواب کی نیت سے بعض اداروں کو عطیہ کرتے ہیں، یہ کیسا ہے؟

جواب

خون انسانی بدن کا جزو ہے، اور انسان کے لیے اپنے جسم کا کوئی بھی جزو اپنے اختیار سے عطیہ دینایا اس کی خرید و فروخت کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کوئی مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر اس کی جان جانے یا مرض طویل ہوجانے کا اندیشہ ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت حال میں خون بطور عطیہ دینا جائز ہے، اور اس طرح ایک مسلمان کی جان بچانے پر ثواب کی بھی امید ہے، نیز  مذکورہ اضطراری صورت میں خون خریدنا بھی جائز ہے۔تاہم خون بیچنا جائز نہیں ہے کیوں کہ خون نجس ہے اور شرعاً مال نہیں ہے، جو چیز مال ہی نہ ہو اس کے بیچنے کی  کوئی جائز صورت  نہیں ۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1 / 376):
"وفي شرح المنظومة الإرضاع بعد مدته حرام؛ لأنه جزء الآدمي والانتفاع به غير ضرورة حرام على الصحيح وأجاز البعض التداوي به؛ لأنه عند الضرورة لم يبق حرامًا".

" عن أبي حجيفة أن النبي صلى الله عليه و سلم نهى عن ثمن الدم وثمن الكلب وكسب البغي ولعن آكل الربا وموكله والواشمة والمستوشمة والمصور . رواه البخاري".
ترجمہ: حضرت ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے خون کی قیمت، کتے کی قیمت، اور بدکار عورت کی اجرت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کے استعمال سے منع فرمایا ہے،  نیز آپ نے سود لینے والے اور سود دینے والے گودنے والے اور گودوانے والے اور مصور (تصویر بنانے والے) پر لعنت فرمائی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201754

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں