بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خون کی ڈونیشن سے متعلق چند سوالات


سوال

خون کے بارے میں چند سوالات کرنا چاہتا ہوں:

1. کسی مریض کو خون دینا جائز ہے؟

2.  کیا ضرورت کے وقت خون بیچنا جائز ہے؟

3. کسی ویلفیئر یا بلڈ بینک کو ہدیہ کی صورت خون دینا جائز ہے یا نہیں؟

4. اگر بلڈ بینک کو ثواب کی نیت سے خون دیں لیکن بلڈ بینک یا ویلفیئر وہ خون بیچ دیں تو خون دینے والے آدمی کو ثواب ملتا ہے یا  بلڈ بینک اور ویلفیئر کو ثواب ملتا ہے؟

جواب

     1.  خون جب جسم سے نکل جائے تو وہ بھی نجس اور ناپاک ہے، اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ  اس کی کسی دوسرے انسان کے جسم میں منتقلی حرام ہو، لیکن اضطراری حالات اور ضرورتِ شدیدہ کے موقع پر  فقہاء نے عورت کے دودھ پر قیاس کرکے  اس کے استعمال کی اجازت دی ہے،  البتہ اس کی نجاست  کے پیشِ نظر اس کے استعمال کا حکم وہی ہے جو دوسری حرام اور نجس چیزوں کے استعمال کا ہے یعنی:

(الف)جب مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر داکٹر کی نظر  میں خون دیے بغیر اس کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہوتو خون دینا جائز ہے۔

(ب)جب ماہر داکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو، یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ نہ ہو، لیکن اس کی رائے میں خون دیے بغیر صحت کا امکان نہ ہو ، تب بھی خون دینا جائز ہے۔

(ج) جب خون نہ دینے کی صورت میں  ماہر داکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا  اندیشہ  ہو، ا س   صورت میں بھی   خون دینے کی گنجائش ہے، مگر  اجتناب بہتر ہے۔ ان تمام صورتوں میں خون کاعطیہ دینا توجائز ہے، مگر خون کامعاوضہ لینادرست نہیں ہے۔

(د) جب خون دینے سے محض منفعت و زینت اور قوت بڑھانا    مقصود ہو،  ایسی  صورت میں خون دینا  جائز نہیں ہے۔

2. خون کا بیچنا جائز نہیں۔

3. اگر کوئی بلڈ بینک ایساہو جو لوگوں کا عطیہ کیا ہوا خون بلا عوض مریضوں کو دیتے ہوں تو ایسے بلڈ بینک میں خون دیا جا سکتا ہے اور جو ادارہ لوگوں کا عطیہ کیا ہوا خون  مریضوں کو فروخت کرتے ہوں انہیں خون کاعطیہ دینابھی  "تعاون على الاثم"  ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہو گا، تاہم جب بلڈ بینک والےخون کو اپنی مشینوں میں صاف کرتے ہیں، سیلز (cells) کو الگ کرتے ہیں، اس لئے اگر مناسب اجرت خون صاف کرنے کے عوض لیتے ہیں تو اس کی گنجائش ہوگی۔

4. اگر بلڈ بینک کو ثواب کی نیت سے خون عطیہ کیا جائے تو خون دینے والے کو بلا شبہ ثواب ملے گا۔

مجمع الانہرمیں ہے:

"وفي شرح المنظومة الإرضاع بعد مدته حرام؛ لأنه جزء الآدمي والانتفاع به غير ضرورة حرام على الصحيح وأجاز البعض التداوي به؛ لأنه عند الضرورة لم يبق حرامًا۔"

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، مايحرم بالرضاع۱ /۳۷۶ط: دار إحياء التراث العربي)

حدیث شریف میں ہے:

"عن عون بن أبي جحيفة، قال: رأيت أبي، فقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الدم، وثمن الكلب، وآكل الربا وموكله، والواشمة والمستوشمة."

(صحيح البخاري ، كتاب اللباس ، باب الواشمة۴ /۲۶۵۷ط: بشری)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"يجوز للعليل شرب الدم والبول وأكل الميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه."

(الفتاوي الهندية، كتا ب الكراهية، الباب الثامن عشر في التداوي،۵ /۳۵۵،ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101555

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں