بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خون عطیہ کرنے اور اس کے لیے قبل از وقت کیمپ لگانے کا حکم


سوال

بلڈ ڈونیٹ کرنا اور قبل از وقت بلڈ کیمپ لگانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ       خون جب جسم سے نکل جائے تو وہ بھی نجس اور ناپاک ہے، اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ  اس کی بھی کسی دوسرے کے جسم میں منتقلی حرام ہو، لیکن اضطراری حالات اور ضرورتِ شدیدہ کے موقع پر  فقہاء نے   اس کے استعمال کی اجازت دی ہے،  البتہ اس کی نجاست  کے پیشِ نظر اس کے استعمال کا حکم وہی ہے جو دوسری حرام اور نجس چیزوں کے استعمال کا ہے یعنی:

(۱)جب مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر داکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر اس کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہوتو خون دینا جائز ہے۔

(۲)جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو، یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ نہ ہو، لیکن اس کی رائے میں خون دیے بغیر صحت کا امکان نہ ہو ، تب بھی خون دینا جائز ہے۔

(۳) جب خون نہ دینے کی صورت میں  ماہر ڈاکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا  اندیشہ  ہو، ا س   صورت میں بھی   خون دینے کی گنجائش ہے، مگر  اجتناب بہتر ہے۔ ان تمام صورتوں میں خون کاعطیہ دینا توجائز ہے، مگر خون کامعاوضہ لینادرست نہیں ہے۔

(4) جب خون دینے سے محض منفعت و زینت اور قوت بڑھانا    مقصود ہو،  ایسی  صورت میں خون دینا  جائز نہیں ہے۔

اسی طرح  قبل از وقت جو  بلڈ ڈونیٹ کیمپ لگائے جاتے ہیں اگروہ واقعۃً ضرورت کے مواقع پر  خون   مریضوں کو بلاعوض  پہنچاتے ہوں تو  ان کا کیمپ لگانا بھی جائز ہے، اور انہیں خون عطیہ کرنا بھی جائز ہے۔ 

الدر مع الرد میں ہے:

"(و لم يبح الإرضاع بعد موته) لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية. وفي البحر: لا يجوز ‌التداوي ‌بالمحرم في ظاهر المذهب، أصله بول المأكول كما مر (قوله: و في البحر) عبارته: وعلى هذا أي الفرع المذكور لا يجوز الانتفاع به للتداوي. قال في الفتح: وأهل الطب يثبتون للبن البنت أي الذي نزل بسبب بنت مرضعة نفعا لوجع العين. واختلف المشايخ فيه، قيل لا يجوز، وقيل يجوز إذا علم أنه يزول به الرمد.

و لايخفى أن حقيقة العلم متعذرة، فالمراد إذا غلب على الظن و إلا فهو معنى المنع اهـ. ولا يخفى أن ‌التداوي ‌بالمحرم لا يجوز في ظاهر المذهب، أصله بول ما يؤكل لحمه فإنه لايشرب أصلًا. اهـ. (قوله: بالمحرم) أي المحرم استعماله طاهرا كان أو نجسا ح (قوله: كما مر) أي قبيل فصل البئر حيث قال: فرع اختلف في ‌التداوي ‌بالمحرم. وظاهر المذهب المنع كما في إرضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما خص الخمر للعطشان وعليه الفتوى. اهـ. ح."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج3،ص211،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307200057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں