ایک ساتھی کے عزیز کو خون کی ضرورت تھی ، تو اس ساتھی نے اپنے چند ساتھیوں سے خون عطیہ کرنے کا مطالبہ کیا ، تو اس دوست کے عزیز کو چند دوستوں نے خون عطیہ کیا، اور ان کے درمیان کوئی معاوضہ کی شرط نہیں لگی تھی، اب خون دینے کے بعد اس دوست کے بھائی نے تمام خون عطیہ کرنے والوں کو اپنی طرف سے دو، دو ہزار روپے دیے، اب یہ پیسہ لینا حرام تو نہیں؟ آیا اس میں شبہ وغیرہ ہے یا نہیں؟ کیوں کہ ہمیں شبہات سے بھی بچنے کا حکم دیا گیا ۔
واضح رہے کہ خون انسانی بدن کا جز ہے، اور انسان کے لیے اپنے جسم کا کوئی بھی جز عطیہ کرنا یا اس کی خرید فروخت کرنا جائز نہیں ہے ، البتہ اگر کوئی مریض اضطراری حالت میں ہو اور خون دیے بغیر جان جانے یا مرض طویل ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں بطور عطیہ خون دینا جائز ہے ، بلکہ اضطراری حالت میں بطور ِ عطیہ نہ ملنے پر جان بچانے کے لیے خون خریدنا بھی جائز ہے، تاہم خون فروخت کرنا کسی بھی صورت جائز نہیں ، کیوں کہ خون نجس ہونے کی بنا پر شرعا مال نہیں ہے ۔
الصحیح البخاری میں ہے:
"عن عون بن أبي جحيفة قال: رأيت أبي، فقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم «نهى عن ثمن الدم، وثمن الكلب، وآكل الربا وموكله، والواشمة والمستوشمة."
(كتاب اللباس، باب الواشمة، ج:7، ص:166، ط:دار طوق النجاة)
مجمع الاَنھر فی شرح ملتقی الاَبحر میں ہے:
"وفي شرح المنظومة الإرضاع بعد مدته حرام؛ لأنه جزء الآدمي والانتفاع به غير ضرورة حرام على الصحيح وأجاز البعض التداوي به؛ لأنه عند الضرورة لم يبق حراما."
(كتاب الرضاع، باب مايحرم بالرضاع، ج:1، ص:376، ط:دار إحياء التراث العربي)
لہذا صورتِ مسئولہ میں جب خون دیتے وقت معاوضہ کی کوئی شرط نہیں تھی اور نہ ہی معاوضہ کا تعامل ہے، اور خون عطیہ کرنے کے بعد بغیر کسی معاوضہ کے اپنی خوشی ورضامندی سے مریض کے بھائی نے خون عطیہ کرنے والوں کو رقم دی تو یہ رقم شرعاً حرام نہیں ہے۔فقط واللہ اَعلم
فتوی نمبر : 144507100234
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن