بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر خون صاف کرلیا جائے تو وضو کا حکم / موبائل پر زکاۃ کا حکم / حوائجِ اصلیہ کیا ہیں؟


سوال

1- اگر کسی کاخون نکلا اور جگہ پر سے تجاوز نہیں کیا اور اس نے انگلی یا کوئی اور چیز لگائی جس سے انگلی وغیرہ پر لگ گیا تو کیا حکم ہے؟

2- کیا موبائل پر زکوۃ ہے؟

3-  حوائج اصلیہ کس کو کہتے ہیں اور کون کون سی ہیں؟

4-اگر بیٹے کے پاس نصاب سے زائد مال ہے لیکن وہ باپ کے ساتھ رہتا ہے اور باپ پر بھی زکوۃ واجب ہے تو زکوت کا کیا حکم ہے؟

جواب

1-اگر خون اتنا تھا کہ اگر اسے انگلی وغیرہ سے صاف نہ کیاجاتاتو بہہ جاتا اس صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا۔اور اگر اتنی مقدار میں نہیں تھا تو اس صورت میں انگلی وغیرہ سے اس کو ہٹانے کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (1 / 135):

"لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا كما لو سال في باطن عين أو جرح أو ذكر ولم يخرج وكدمع وعرق إلا عرق مدمن الخمر فناقض على ما سيذكره المصنف".

2- موبائل اگر استعمال میں ہو تو اس  پر  زکاۃ واجب نہیں ہے۔ 

البتہ تجارت  کی نیت سے رکھے ہوں تو اموالِ زکاۃ  میں شمار ہوں گے، اس صورت میں صرف موبائل یا دیگر قابلِ زکات اموال  کے ساتھ مل کر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی مالیت تک پہنچ جائیں تو سالانہ زکات واجب ہوگی۔

3-ضرورتِ اصلیہ  یا حوائج اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے  جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔اور  ہر انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے  اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص  تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو  ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہے۔ مثلاً ایک سے زائد مکان ہوں، لیکن رہائش کے لیے ہوں، تو  یہ ضرورت و استعمال میں داخل ہوں گے، اور ان کی مالیت زکات  یا صدقہ فطر کے وجوب کے نصاب میں شامل نہیں کی جائے گی۔

3۔ شرعی اعتبار سے ہر فرد کی ملکیت کا الگ اعتبار ہے، جو شخص بھی صاحبِ نصاب ہوگا اس پر سالانہ بنیاد پر زکوۃ کی ادائیگی لازم ہے ، لہذااگر بیٹا  اور والد دونوں صاحبِ نصاب ہیں تو   اگرچہ بیٹا والد کے ساتھ رہتا ہو، والد اور بیٹے  دونوں پر اپنے اپنے اموال کے بقدر زکوۃ کی ادائیگی واجب ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں