خلع ہونے کےبعد تجدید ِنکاح کے بغیرمیاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتےہیں؟
اگر میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے خلع ہواہواور بوقت خلع طلاق کا لفظ استعمال نہ کیاگیاہو تو یہ خلع طلاق بائن کے حکم میں ہے ،اس صورت میں تجدید نکاح کے بغیر میاں بیوی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور اگر خلع تو باہمی رضامندی سے ہوا ،لیکن خلع نامہ میں طلاق لکھ دی گئی ہو تو ایسی صورت میں جتنی طلاقیں لکھی گئی ہوں گی اتنی ہی طلاقیں واقع ہوں گی ، ایک یا دو طلاق رجعی لکھی ہوں گی تو عدت کے بعد تجدید نکاح کی گنجائش ہوگی اور اگرتین طلاقیں لکھی ہوں گی تو تجدید نکاح کی گنجائش نہیں ہوگی۔
اور اگر عورت نے عدالت سے خلع لیا ہے اور شوہر نے عدالتی خلع پر زبانی یا تحریری رضامندی کا اظہار کیا ہوتو اس صورت میں بھی تجدید نکاح کے بغیر ساتھ رہنا جائز نہیں ہوگااور اگر عورت نے عدالت سے خلع لیاہے اور شوہر نے اسے زبانی یا تحریری طور پر سرے سے قبول ہی نہیں کیا اور نہ وہ خلع دینے پر راضی ہو تو ایسا خلع معتبر ہی نہیں ہوا،اس صورت میں نکاح باقی تھا اب میاں بیوی تجدید نکاح کے بغیر ساتھ رہ سکتے ہیں۔
تبیین الحقائق میں ہے:
"عبارة عن أخذ المال بإزاء ملك النكاح بلفظ الخلع وشرطه شرط الطلاقوحكمه وقوع الطلاق البائن وصفته يمين من جهته معاوضة من جهتها وهو مشروع بالكتاب والسنة وإجماع الأمة أما الكتاب فقوله تعالى{فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229]، وقال عليه الصلاة والسلام «الخلع تطليقة بائنة» وقد أجمعت الصحابة على ذلك."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، 2/ 267، ط: دار الکتاب الإسلامی)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"(وحكمه) وقوع الطلاق البائن كذا في التبيين.
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، الباب الثامن فی الخلع، الفصل الأول، 1/ 488، ط: دارالفکر)
وفیھا أیضا:
"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز."
(کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعة، فصل فیما تحل به المطلقة، 1/ 473، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100750
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن