بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانا سامنے رکھ کرفاتحہ پڑھنے کا حکم


سوال

کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فاتحہ کا جو طریقہ آج کل رائج ہے کہ مخصوص ایام میں کھانے پر فاتحہ پڑھ کر کسی کو دینا، یہ نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، نہ ہی صحابہ کرام سے منقول ہے، بل کہ فاتحہ کا یہ مروجہ طریقہ بدعت ہے، اور اس طرح کے مواقع پر تیار کردہ کھاناکھانے سے اجتناب کرنا چاہیے، اور بنانے سے بھی۔

لہذا  مرحومین کے ایصال و ثواب پہنچانے کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی دن یا تاریخ کا اہتمام کیے بغیر فقراء اور غرباء کو اس نیت سے کھانا کھلادیا جائے کہ اس کا ثواب مرحوم والدین کو پہنچے،یا پھر قرآن مجید کاکچھ حصہ پڑھ کر ان کو ایصالِ ثواب کردیا جائے۔

امداد الفتاوی میں ہے:

"تیجہ، دسواں، چالیسواں وغیرہ سب بدعت کے قبیل سے ہیں اور ہندوستانی کافروں کے رسوم و رواج سے دَر آئی ہیں، اور کھانا سامنے رکھ کر جو کچھ پڑھتے ہیں یہ بھی ہندؤں کا طریقہ ہے، اس قسم کی رسومات کو ترک کرنا لازم ہے؛ کیوں کہ ’’من تشبه بقوم الخ‘‘جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے شمار ہوگا، اور جب کھانے کے ساتھ اس قسم کی بدعتیں بھی ہونے لگیں تو بہتر یہ ہے کہ ایسا کھانا نہ کھایا جائے؛ کیوں کہ حدیث میں ہے’’دع ما یریبك إلى مالا یریبك‘‘مشکوک و مشتبہ چیزوں کو چھوڑ کر غیر مشتبہ چیزوں کو اختیار کرو، اور جو کھانا اور شیرینی بزرگوں کے نام نیاز کی جاتی ہے اس کی دو جہتیں ہیں: بعض جہلاء ان کو تقرب حاصل کرنے اور ان بزرگوں سے اپنی مرادیں مانگنے کی نیت سے کھلاتے ہیں اور شیرینی تقسیم کرتے ہیں، یہ تو شرک ہے، اور اس قسم کا کھانا اور شیرینی کھانا حرام ہے’’وما اهل لغیر اللّٰه‘‘میں داخل ہونے کی وجہ سے، اور بعض حضرات اللہ ہی کے لیے کھلاتے ہیں اور ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ اس کا ثواب فلاں بزرگ کی روح کو پہنچادے تو یہ جائز ہے، اور اس طرح کا کھانا اور شیرینی وغیرہ سب حلال ہیں۔"

 (ج:  ۵ صفحہ:۲۶۹ )

فتاوی شامی میں ہے:

"فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون- اهـ".

(باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الاستئجار على الطاعات، ج: ۶، صفحہ: ۵۶، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں