بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلوت صحیحہ کے بعد طلاق کاحکم


سوال

میری شادی 2022-07-22  کوہوئی، جس میں لڑکی 4 دن میرے ساتھ رہی، اس دوران مجھے معلوم نہیں تھا کہ لڑکی حیض کی حالت میں ہے یا نہیں؟ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ  وہ اس دوران ماہواری سے تھی، چاردن گزرنے کے بعد لڑکی اپنی ماں کے گھر چلی گئی، اسی دوران ایک دفعہ بھی ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا، شادی کے ساتویں دن میں اسلام آباد چلا گیا ، لڑکی نے کہا کہ وہ 19 اگست تک اسلام آباد نہیں آسکتی، شادی کے دسویں دن لڑکی اپنے چچا،چچی، بھائی، دو پھوپھیوں، اوردوکزن کے ساتھ میری غیر موجودگی میں میرے گھر کراچی میں آئی اور میرے گھر والوں كے ساتھ جھگڑا کیا اور مجھ پر مختلف الزامات و تہمتیں لگائیں،اور لڑکی نے خود طلاق کا مطالبہ کیا اور لڑکی کے گھروالے مستقل میرے گھر والوں کو تنگ کرتے رہے اور دھمکیاں دیتے رہے جس کے بعد میں نے لڑکی کے کہنے پر طلاق کے کاغذات تیار کروائے ،جس میں تین طلاق دینے کا ذکر ہے اور میرے دستخط بھی ہیں ۔

میرا سوال یہ ہے کہ آیا اس صورت میں جب میاں بیوی کا کوئی  ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا،البتہ تنہائی میں ملاقات ہوئی ہے،جس وقت تنہائی میں ملاقات ہوئی اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ لڑکی حیض سے ہے یا نہیں؟ لیکن بعد میں پتہ چلا تھا کہ وہ حیض کی حالت میں تھی،کیا اس صورت میں حق مہر کی رقم ادا کرنی ہوگی یانہیں؟ واضح رہے کہ طلاق خود لڑکی کے مطالبہ پر ہوئی ہے، لیکن لڑکی نے کوئی مہر معافی کا ذکر نہیں کیا تھا۔

جواب

واضح  رہے کہ اگر نکاح کے بعد میاں بیوی تنہائی میں ملاقات کریں اور ہم بستری کے لیے کسی قسم کا کوئی مانع موجود نہ ہو تو یہ تنہائی "خلوتِ صحیحہ" کہلاتی ہے، اس کے بعد دی جانے والی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، اور پورا مہر ادا کرنا لازم ہوتا ہے، لیکن اگر تنہائی میں ملاقات کے باوجود   بیوی سے ہم بستری کے لیے کوئی مانع ہو مثلا بیوی حالتِ حیض میں ہو اور شوہر اس کے ساتھ حقوق ادا نہیں کر سکتا تو یہ  تنہائی "خلوتِ صحیحہ" نہیں ہے، جس کی وجہ سے پورا مہر ادا کرنا لازم نہیں ہوتا ، بلکہ آدھا مہر ادا کرنا ہوتا ہے اور اگر تین الگ الگ جملوں میں طلاق دی ہو تو ایک طلاق سے بیوی بائن ہوکر اجنبیہ ہوجاتی ہے،جس کی وجہ سے  بیوی پر بقیہ دونوں طلاقیں واقع نہیں ہوتیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ سائل رخصتی کے بعد اپنی بیوی سے تنہائی میں ملا ، لیکن وہ حالتِ حیض میں تھی، جس کا سائل کو بعد میں پتہ چلا تو یہ تنہائی "خلوتِ صحیحہ" نہیں، لہذا اس کے بعد  جب سائل نے اپنی بیوی کو تین علیحدہ جملوں میں طلاقیں دیں تو سائل کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی تھی،  اور سائل پر آدھا مہر ادا کرنا لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء (بلا مانع حسي) كمرض لأحدهما يمنع الوطء (وطبعي) كوجود ثالث عاقل ذكره ابن الكمال، وجعله في الأسرار من الحسي، وعليه فليس للطبعي مثال مستقل (وشرعي) كإحرام لفرض أو نفل. (و) من الحسي (رتق) بفتحتين: التلاحم (وقرن) بالسكون: عظم (وعفل) بفتحتين: غدة (وصغر) ولو بزوج (لا يطاق معه الجماع

و في الرد : (قوله فليس للطبعي مثال مستقل) فإنهم مثلوا للطبعي بوجود ثالث وبالحيض أو النفاس مع أن الأولى منهي شرعا وينفر الطبع عنه فهو مانع حسي طبعي شرعي، والثاني طبعي شرعي، نعم سيأتي عن السرخسي أن جارية أحدهما تمنع بناء على أنه يمتنع من وطء الزوجة بحضرتها طبعا مع أنه لا بأس به شرعا، فهو مانع طبعي لا شرعي، لكنه حسي أيضا فافهم."

(رد المحتار، كتاب النكاح، باب المهر 3/ 114 ط: سعيد)

وفي الفتاوى الهندية:

"والحيض والنفاس يمنعان."

(كتاب النكاح، الباب السابع، الفصل الثاني 1/ 304 ط: رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100854

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں