بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی کے بعد سے شوہر کا تین سال بیوی کے قریب نہ جانے پر بیوی کے لیے خلع لینے کا حکم


سوال

تین سال پہلے میری شادی میرے خالہ زاد سے ہوئی ،وہ  امریکہ میں رہتا تھا، اور شادی کے موقع پر تین سے چار دن کے لیے یہاں آیا تھا، اور شادی یہاں ہوئی تھی، اور پھر شادی   اور رخصتی کے بعد وہ میرے ساتھ میاں بیوی والا تعلق قائم کیے بغیر  واپس امریکہ چلاگیا، اور واپس جانے کے  بعد بھی اس نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا ،میرے رابطہ کرنے پر بھی وہ مجھ سے بات نہیں کرتا تھا، اور بدتمیزی وغصہ کرکے میرا فون کاٹ دیتا تھا ۔پھر ایک سال بعد میرا شوہر پاکستان آئے ،اور وہ بھی اپنے دوست کی شادی میں آئے تھے، میرے لیے نہیں آئے تھے ،اور میرے گھر والوں نے مجھے زبردستی  ان کے پاس بھیجا تھا، لیکن وہ رات بھر اپنے دوستوں کے ساتھ ہوئے تھے، اور میرے ساتھ اس وقت بھی انہوں  نے  میاں بیوی والا کوئی تعلق قائم نہیں کیا ۔میں نے  سوال کیا کہ آپ نے مجھ سے شادی کیوں کی، تو جواب ملا، کہ میری امی نے کہا تھا، اگر تم نے نہیں کرنی تھی تو منع کردیتی اور اب بھی منع کردو۔

مجھے میرے گھر والوں نے شوہر کے  گھر کے  کچھ معاملات نہیں بتائے، اور نہ ہی شوہر کے بارے میں کچھ بتایا ہے، کہ وہ وہاں کیا کرتا ہے، اور میرے زیادہ معلومات کرنے پر پتہ چلا، کہ میرے دیور  وہاں کلب میں کام کرتا ہے، اور وہاں  ہر قسم کا نشہ بکتا ہے، اور اس کی کمائی کے حلال و حرم میں کوئی فرق نہیں ، اور ویسے بھی مغربی ممالک کاماحول بہت خراب ہے، اور میں نہیں چاہتی کہ میں  اور میرے ہونے والے بچے  اس گھر اور وہاں کے ماحول میں پلے بڑھیں ۔

میں نے ساری باتیں اپنے والدین کو بتائی ہیں، اور والدین اس  بات کو مانتے ہیں کہ جو میں کہہ رہی  ہوں ،صحیح کہہ رہی ہوں، مگر میرے والدین مجھے کہہ رہے ہیں کہ خاندان کی عزت کے لیے چلی جاؤ، اور  کہہ رہے ہیں، کہ امریکہ چلی جاؤ ورنہ ہماری رشتہ داری ٹوٹ جائے گی ۔

میرے شوہر یہ کہتے ہیں ،کہ مجھے کوئی غرض نہیں یہاں نہیں آنا چاہتی ،مت آؤ۔میرے شوہر کو میرے اندر کوئی دلچسپی نہیں ہے اور تین سال سے مجھ سے صحیح طرح کوئی رابطہ نہیں کیا، اور نہ ہی ان تین سالوں میں مجھے کوئی خرچہ وغیرہ دیا ہے، اور شادی کے بعد ،اسی طرح  جب شادی کے ایک سال بعد آئے تھے، تب بھی میاں ، بیوی والا کوئی تعلق قائم نہیں کیا ۔

اب میں ان سب حالات میں اپنے شوہر سے خلع لیناچاہتی ہوں، لیکن میرے والدین  مجھے امریکہ بھیجنے  پر اصرار کررہے ہیں ،اور   والدین میری ٹکٹ بھی کرواچکے ہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا میں امریکہ نہ جانے پر اور اپنے شوہر سے خلع لینے کے فیصلے پر درست ہوں ،اور اس فیصلے میں والدین کی نافرمانی تو نہیں کررہی ہوں؟

جواب

صورت مسئولہ میں  سائلہ کابیان اگر واقعۃ ً صحیح اور درست ہے ، کہ ان کےساتھ  شوہر کا   رویہ انتہائی  نامناسب اور غیر معقول ہے ،مثلاً شادی کے بعد سے اب تک  حق زوجیت ادا نہیں کررہاہے ، نان و نفقہ ادا نہیں کررہاہے اور  نہ سائلہ سے بات کرتاہے ،تو شرعا سائلہ کاشوہر ایسے امور کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا ،سائلہ کو چاہیے کسی طرح بھی شوہر کو راضی کرے ،اگر کسی طرح بھی نباہ ممکن نہ ہو ،تو اس صورت میں  سائلہ کو چاہیے، کہ  کسی طرح شوہر سے طلاق  لینے کی کوشش  کرے، ورنہ  حق مہر کے بدلہ  میں شوہر  کو خلع پر آمادہ  کرے۔

واضح رہے کہ خلع درست ہونے کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے شوہر کی رضامندی کے بغیر صرف عدالت سے خلع لینا شرعا معتبر نہیں ہے۔

لیکن  اگر شوہر خلع  بھی نہیں دیتا ہے،   تو سائلہ کورٹ میں اپنا  تنسیخ نکاح کا  مقدمہ دائر کرکے اپنے دعوی کو گواہوں سے ثابت  کرے، عدالت  شوہر کو بلاکر بیوی کے حقوق  ادا کرنے پر  آمادہ کرے گی ، اگر وہ  آمادہ نہیں  ہوتا،  یا عدالت میں حاضر نہیں  ہوتا تو عدالت نکاح  فسخ کردے گی ،اس کے بعدسائلہ کے لئے   عدت گذار کر دوسری  جگہ نکاح  کرنا جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع۔"

(باب ا لخلع، ج:3،ص:441،ط:ایچ ایم سعید)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."

(باب الخلع،ج:6،ص:173،ط: دارالکتب العلمیہ بیروت)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ميں هے: 

" وطاعة الإمام لازمة كذا طاعته؛ لأنها طاعة الإمام، إلا أن يأمرهم بمعصية فلا تجوز طاعتهم إياه فيها؛ لقوله - عليه الصلاة والسلام -: لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق۔"

(كتاب السير ،7/ 99،ط:دارالكتب العلمية)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"زوجہ متعنت کو اول تو لازم ہے کہ کسی طرح خاوند سے خلع وغیرہ کرلے لیکن اگر باوجود سعی بلیغ کے کوئی صور ت نہ بن سکے ،تو سخت مجبوری کی حالت میں مذ  ہب مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے ،کیوں کہ ان کے نزدیک زوجہ متعنت کوتفریق کاحق مل سکتا ہے، اور سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں :ایک یہ کہ عورت کاخرچ کاکوئی انتظام نہ ہوسکے یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسبِ معاش پر قدرت رکھتی ہو، اور دوسری صورت مجبوری کی یہ  ہے کہ اگر چہ بسہولت یا بدّقت خرچ کا انتظام ہوسکتاہے لیکن شوہر سے علیحدہ رہنے میں ابتلاء معصیت کا قوی اندیشہ ہو۔"

(حکم زوجہ متعنت،ص:72،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں