میں ملازمت کرتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ ساتھ ساتھ کوئی کاروبار بھی سیٹ کروں تو میری خواہش ہے کہ جب کھل اور چینی کا سیزن آئے تو لے کر رکھ لوں، اور چھ، سات ماہ بعد اچھا منافع دے گی تو اس ٹائم بیچ دوں۔ کیا شرعی لحاظ سے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ جن چیزوں میں درج ذیل صفات پائی جائیں ان کی ذخیرہ اندوزی منع ہے:
(1) وہ چیز عرف عام میں انسان یا جانور کی غذا کے طور پر استعمال ہوتی ہو۔
(2) یہ اشیاء ایسے مقامات سے خریدی گئی ہوں جن کی پیداوار اس شہر میں آتی ہو۔
(3) ان کو ذخیرہ کرنے میں شہر والوں کو نقصان پہنچتا ہو۔
اگر مارکیٹ میں بقدرِ ضرورت کھل اور چینی دست یاب نہ ہو یا بالکل ختم ہوچکی ہو تو ایسی صورت میں قیمت بڑھانے کی نیت سے ذخیرہ اندوزی کرنا جائز نہیں، البتہ اگر مارکیٹ میں ضرورت کے بقدر دست یاب ہوں تو پھر سیزن پر لے کر جمع کرنا جائز ہوگا، چینی اگرچہ طعام اور اناج میں داخل نہیں ہے، لیکن روز مرہ استعمال اور مختلف غذاؤں کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کے بحران سے ضررِ عامہ وابستہ ہے، لہٰذا اس کی ذخیرہ اندوزی اِضرار یا نیتِ اِضرار کی صورت میں ممنوع ہوگی۔
ردالمحتار میں ہے:
"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره."
(قوله: وكره احتكار قوت البشر) الاحتكار لغةً: احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس، وشرعاً: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوماً لقوله عليه الصلاة والسلام: «من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس». وفي رواية: «فقد برئ من الله وبرئ الله منه». قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اهـ وفي أخرى: «فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لايقبل الله منه صرفاً ولا عدلاً». الصرف: النفل، والعدل الفرض، شرنبلالية عن الكافي وغيره. وقيل: شهراً. وقيل: أكثر. وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم؛ لحصوله. وإن قلت: المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى! در منتقى، مزيداً، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد، وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال.
(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى (قوله: وقت) بالقاف والتاء المثناة من فوق الفصفصة بكسر الفاءين وهي الرطبة من علف الدواب اهـ ح وفي المغرب: القت اليابس من الإسفست اهـ ومثله في القاموس، وقال في الفصفصة: بالكسر هو نبات فارسيته إسفست، تأمل (قوله: في بلد) أو ما في حكمه كالرستاق والقرية، قهستاني (قوله: يضر بأهله) بأن كان البلد صغيراً، هداية".
(کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ج،6،ص،398،ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100241
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن