اگر کوئی بندہ اپنے خیال میں یہ کہہ دے :"طلاق ہو۔" تو کیا طلاق ہو جاتی ہے؟
واضح رہے کہ طلاق کے وقوع کے لیے طلاق کے الفاظ زبان سے بولنا ضروری ہے،اس لیے اگر کسی شخص کو محض طلاق کے خیالات آۓ اور اس نے زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں بولے تو اس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی، لہذا صورت مسئولہ میں اگر اس شخص نے محض خیالات میں "طلاق کا جملہ ہو۔" سوچا، مگر زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں بولے تو اس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر ” طلاق ہو۔“ سوچا اور پھر اپنی زبان سے بھی بیوی کی طرف نسبت کرتے ہوے ”طلاق ہو۔“ بول دیا، تو بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائےگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية."
(كتاب الطلاق،230/3،ط:سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ... الخ."
(کتاب الطلاق، باب الصریح،247/3، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وقال الليث: الوسوسة حديث النفس، وإنما قيل موسوس لأنه يحدث بما في ضميره وعن الليث لا يجوز طلاق الموسوس."
(کتاب الجھاد، باب المرتد،224/4، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102621
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن