بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خیار رؤیت،اور خیار عیب کا حکم


سوال

میں نے بائع کے ایجنٹ کے ذریعہ چائنا سے مال منگوایا ،میں بائع کو براہ راست نہیں جانتا ہوں ،وہ ایجنٹ کمیشن بھی بائع سے لیتا ہے،سودا بھی ہم نے ایجنٹ سے ہی کیا ہے،سامان کی کوالٹی،مقدار اور قیمت طے ہو گئی ،ہم نے قیمت بائع کے اکاؤنٹ میں جمع کر دی ،جب مال کراچی پہنچا تو کوالٹی بھی خراب تھی اور طے شدہ وزن بھی نہیں تھا ،مقدار جو طے ہوئی تھی وہ 125 ٹن تھی اور پر ٹن قیمت طے ہوئی تھی ،جب مال آیا تو 88 ٹن تھا ،اب سوال یہ ہے کہ :

1)وزن کی کمی اور کولٹی کے خراب ہونے کی وجہ سے مجھے جزوی قیمت واپس لینے یا کسی قسم کے کلیم کا اختیار ہے یا نہیں ؟

2)اگر ہے تو پھر یہ مطالبہ کس سے کروں ،بائع سے یا اس کے وکیل سے ؟واضح رہے کہ سپلائر کو میں جانتا تک نہیں ہوں ۔

جواب

1،2)واضح رہے کہ کسی چیز کو دیکھے بغیر اس کا خرید نا جائز ہے ،لیکن مشتری(خریدار) کو دیکھنے کے بعد  بہر دو صورت یعنی   وہ اسی صفت پر نکلے جو مشتری(خریدار) نے بائع(بیچنے والے) کے ساتھ طے کیا تھا یا اس کے علاوہ، اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کل  مبیع(خریدی گئی چیز) کوکل قیمت کے ساتھ  لے یا کل مبیع واپس کردے،یہی حکم مبیع کا عیب دار ہونے کی صورت میں بھی ہے ،مشتری کو مبیع کے اعلی  اور گھٹیا ہونے کی صورت میں قیمت کے کمی بیشی کے ساتھ لینے اختیار حاصل نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں جب سائل نے مذکورہ مبیع کوطے کردہ صفت پر نہیں پایاتو  یا تو کل مبیع واپس کر دے یا کل مبیع اسی قیمت پر لے لے ۔

البتہ خرید و فروخت فی ٹن کے حساب سے تھی اور سائل نے کنٹینر میں 37 ٹن کم پایا تو اس صورت میں سائل کو  37 ٹن کی قیمت  وصول کرنے کا حق ہے۔

نیز سائل اگر کسی عیب یا دیکھنے کے بعد پسند نہ آنے کی وجہ سے لوٹاتا ہے تو وہ وکیل ہی کو لوٹائے  گا،اصل بائع پردعوی کا حق نہیں ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(ولو رد مبيع بعيب على وكيله) بالبيع (ببينة أو نكوله أو إقراره فيما لا يحدث) مثله في هذه المدة (رده) الوكيل (على الآمر وفي الرد:(قوله ولو رد مبيع بعيب على وكيله) أطلقه فشمل ما إذا قبض الثمن أو لا وأشار إلى أن الخصومة مع الوكيل فلا دعوى للمشتري على الموكل"

(کتاب الوکالۃ،باب الوکالۃ بالبیع و الشراء،ج:5،ص:524،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وإذا اشترى شيئا لم يعلم بالعيب وقت الشراء ولا علمه قبله والعيب يسير أو فاحش فله الخيار إن شاء رضي بجميع الثمن وإن شاء رده كذا في شرح الطحاوي وهذا إذا لم يتمكن من إزالته بلا مشقة، فإن تمكن فلا كإحرام الجارية فإنه بسبيل من تحليلها كذا في فتح القدير وليس له أن يمسكه ويأخذ النقصان كذا في شرح القدوري"

(کتاب البیوع ،باب فی یار العیب،ج:3،ص:66،ط:رشیدیہ)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"من اشترى شيئا لم يره فله الخيار إذا رآه إن شاء أخذه بجميع ثمنه وإن شاء رده سواء رآه على الصفة التي وصفت له أو على خلافها كذا في فتح القدير هو خيار يثبت حكما لا بالشرط كذا في الجوهرة النيرة"

(کتاب البیوع ،باب فی خیار الرؤیۃ،ج:3،ص:58،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں