بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خیار نقد کی وجہ سے خرید و فروخت کا معاہدہ کالعدم کرنے کا حکم


سوال

میں ایک بلڈر آفس میں کام کرتا ہوں، ہمارا کام پراپرٹی کی خریدو فروخت سے متعلق ہے،ہمارے ذریعہ جب کوئی گاہک کسی قسم کا کوئی اپارٹمنٹ وغیرہ خریدتا ہے، تو اس کی قیمت کی ادائیگی کے لیے ایک مقررہ وقت طے ہوتا ہے، ہمارے آفس کی  ایک پالیسی ہے، جو کہ مذکورہ شخص سےکیے جانے والے معاہدے میں بھی بطورِ شرائط شامل ہوتی ہے  کہ اگر وہ شخص خریدی ہوئی جگہ کی قیمت کی ادئیگی مقررہ وقت میں ممکن نہیں بنائے گا،  توہم اپنی پالیسی کے مطابق اس معاہدے کو کالعدم کرنے کے مجاز ہوں گے، اور معاہدہ ختم کرنے کے بعد ہم اس جگہ کو کسی اور گاہک پر بیچنے کے بھی مجاز ہوں گے، معاہدہ کالعدم کرنے سے قبل کئی مہینوں تک گاہک کو کال کرکےیانوٹس وغیرہ بھیج کر قیمت کی ادئیگی کی باربار تاکید کی جاتی ہے،اور مثبت جواب نہ آنے پر معاہدہ کالعدم کردیا جاتا ہے،نیز معاہدہ کالعدم ہونے کے بعد گاہک کی اداکردہ قیمت پر بھی ایک مقررہ تناسب سے کٹوتی ہوتی ہے۔

نیز اگر وہ شخص اس مقررہ وقت میں اس جگہ کی قیمت ادا نہیں کرپایا، اور معاہدہ کالعدم ہوگیا، بعدازاں وہ رابطہ کرکے مذکورہ جگہ ہم سےدوبارہ خریدنا چاہے،اور وہ جگہ ہمارے پاس موجود ہو، ہم نے آگے فروخت نہ کی ہو، تواس پرانے گاہگ کو نئے معاہدے کے تحت ہم وہ جگہ فروخت کرتے ہیں،لیکن اس کی پرانی قیمت  پر فروخت نہیں کرتے ہیں،بلکہ اس جگہ کی مالیت میں ہونے والے اضافہ کو دیکھا جاتا ہے، اگرمارکیٹ  ویلیو میں اضافہ زیادہ ہوا ہو،تو اس گاہک کے ساتھ نئی قیمت طے ہوتی ہے،اور اگر کم ہوا ہو تو پرانی قیمت پر مزید پانچ یا تین فیصد کا اضافہ کرکے وہ جگہ اسے بیچ دی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم جب کسی گاہک سے کوئی معاملہ کرتے ہیں تو اسے یہ تمام شرائط بتاتے ہیں، لہذا اس صورت میں ہماری مذکورہ پالیسی شرعاً درست ہے یا نہیں ؟ نیز پرانے معاہدہ کالعدم ہونے کے بعد نئے معاہدے میں پانچ یا تین فیصد قیمت میں اضافہ لینا شرعًا سود   کے  زمرے میں تو نہیں آتا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  سودا کرتے وقت بیچنے والا یہ شرط لگادے کہ " اگر مقررہ  مدت تک خریدارنے کل رقم یا کل رقم کا ایک معینہ حصہ ادا نہ کیا تو یہ سودا ختم ہوجائے گا"،اور خریدار مقررہ وقت میں رقم ادا نہ کرے تو یہ معاہدہ ختم ہوجائے گا، اس کے بعد  سائل  کے  لیے جائز ہے کہ نئی قیمت پر نیا معاہدہ کرلے، تاہم پہلے معاہدے کے اختتام پر ادا کردہ  رقم میں کٹوتی کرنا درست نہیں،  بلکہ خریدار نے جتنی رقم ادا کی ہو وہ پوری رقم اسے واپس کرنا ضروری ہے۔

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"إذا تبايعا على أن يؤدي المشتري ‌الثمن ‌في ‌وقت ‌كذا وإن لم يؤده فلا بيع بينهما صح البيع وهذا يقال له خيار النقد، كما يشترط للمشتري خيار النقد يشترط للبائع أيضا. والبيع بخيار النقد يكون مشروطا فيه إقالة فاسدة معلقة على شرط وبما أن الإقالة الصحيحة التي يشترط فيها البيع فاسدة فيكون البيع الذي تشترط فيه الإقالة الفاسدة فاسدا بطريق الأولى فالقياس يوجب عدم جواز البيع الذي يشترط فيه خيار النقد إلا أنه جوز استحسانا ووجه الاستحسان الاحتراز من مماطلة المشتري لأن المشتري إن لم يدفع الثمن فالحاجة تمس إلى فسخ البيع."

(الكتاب الأول البيوع، الباب السادس، الفصل الثالث في حق خيار النقد، ج:1، ص:309، ط:دارالجيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فإن اشترى) شخص شيئاً (على أنه) أي المشتري (إن لم ينقد ثمنه إلى ثلاثة أيام فلا بيع صح) استحساناً، خلافاً لزفر، فلو لم ينقد في الثلاث فسد فنفذ عتقه بعدها لو في يده فليحفظ. (و) إن اشترى كذلك (إلى أربعة) أيام (لا) يصح، خلافاً لمحمد. (فإن نقد في الثلاثة جاز) اتفاقاً؛ لأن خيار النقد ملحق بخيار الشرط، فلو ترك التفريع لكان أولى.

مطلب خيار النقد :(قوله: على أنه أي المشتري إلخ) وكذا لو نقد المشتري الثمن على أن البائع إن رد الثمن إلى ثلاثة فلا بيع بينهما صح أيضاً، والخيار في مسألة المتن للمشتري؛ لأنه المتمكن من إمضاء البيع وعدمه، وفي الثانية للبائع؛ حتى لو أعتقه صح ولو أعتقه المشتري لايصح، نهر. [تنبيه] ذكر في البحر هنا بيع الوفاء تبعاً للخانية قائلاً؛ لأنه من أفراد مسألة خيار النقد أيضاً، وذكر فيه ثمانية أقوال وذكره الشارح آخر البيوع قبيل كتاب الكفالة، وسيأتي الكلام عليه هناك إن شاء الله تعالى. (قوله: فلو لم ينقد في الثلاث فسد) هذا لو بقي المبيع على حاله. قال: في النهر: ثم لو باعه المشتري ولم ينقد الثمن في الثلاث جاز البيع وكان عليه الثمن، وكذا لو قتلها في الثلاث أو مات أو قتلها أجنبي خطأ وغرم القيمة؛ ولو وطئها وهي بكر أو ثيب أو جنى عليها أو حدث بها عيب لا بفعل أحد ثم مضت الأيام ولم ينقد خير البائع، إن شاء أخذها مع النقصان ولا شيء له من الثمن، وإن شاء تركها وأخذ الثمن كذا في الخانية. اهـ.(قوله: فنفذ عتقه إلخ) أي وعليه قيمته بحر عن الخانية، وهذا تفريع على قوله فسد. قال: في النهر: واعلم أن ظاهر قوله فلا بيع يفيد أنه إن لم ينفذ في الثلاث ينفسخ. قال: في الخانية: والصحيح أنه يفسد ولا ينفسخ، حتى لو أعتقه بعد الثلاث نفذ عتقه إن كان في يده. اهـ. وأما عتقه قبل مضي الثلاث فينفذ بالأولى، كما لو باعه كما مر؛ لأنه بمعنى خيار الشرط. (قوله: وإن اشترى كذلك) أي على أنه إن لم ينقد الثمن إلى أربعة أيام. (قوله: لايصح) والخلاف السابق في أنه فاسد أو موقوف ثابت هنا، نهر عن الذخيرة. (قوله: خلافاً لمحمد) فإنه جوزه إلى ما سمياه."

(كتاب البيوع، باب خيار الشرط، ج:4، ص:571، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں