بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کھیت کی باڑ سے مرنے والے جانور کے ضمان کا حکم


سوال

(1) ہم اپنے کھیتوں کے آس پاس اس طور پر لوہے کی تار لگاتے ہیں کہ کوئی بھی چیز جیسے ہی اس میں داخل ہوتی ہے، وہ تار اس کے گلے میں پھنس جاتی ہے اور جانور گلا،  دَب کر مرجاتا ہے، بعض مرتبہ بکریاں چرنے کے لیے وہاں سے گزرتی ہیں، حال آں کہ وہ کھیت کو نقصان بھی نہیں پہنچاتیں، کیوں کہ پکی ہوئی فصل کو بکری نہیں کھاتی،  ایک صاحب کی بکری نے اندر داخل ہونے کی کوشش کی اور تار اس کے گلے میں پھنسنے کی وجہ سے وہ مرگئی، اب آیا کھیت والے پر بکری والے کے لیے ضمان لازم ہوگا یا نہیں؟

(2) اسی طرح کھیت والے مرغیوں سے کھیت کو بچانے کے لیے اس کے ارد گرد زہریلا نمک ڈالتے ہیں، جس کی وجہ سے مرغیاں مرجاتی ہیں، تو ایسی صورت میں بھی کھیت والے پر مرغی والے کے لیے ضمان لازم ہوگا یا نہیں؟

جواب

(1- 2) صورتِ مسئولہ میں کھیت والے نے تار یا کوئی بھی باڑ اپنے ملکیتی کھیت کی حدود میں اس کی حفاظت کے لیے اگر لگائی ہو اور اس کی وجہ سے کوئی جانور، مرغی وغیرہ ہلاک ہوگئی ہو، تو ایسی صورت میں کھیت والے پر ضمان لازم نہیں ہوگا، البتہ اگر اپنے ملکیتی کھیت کی حدود سے باہر یا غیر کی ملکیت میں ایسا کیا اور اس کی وجہ سے کوئی جانور وغیرہ مرگیا تو پھر ضمان لازم ہوگا۔

صحیح مسلم میں اس کی نظیر موجود  ہے:

"45 - (1710) حدثنا يحيى بن يحيى ومحمد بن رمح قالا: أخبرنا الليث، ح وحدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا ليث عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب وأبي سلمة عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «‌العجماء جرحها جبار، والبئر جبار، والمعدن جبار، وفي الركاز الخمس».

[شرح محمد فؤاد عبد الباقي]

[ ش (والبئر جبار) معناه أنه يحفرها في ملكه أو في موات فيقع فيها إنسان وغيره ويتلف فلا ضمان، فأما إذا حفر البئر في طريق المسلمين أو في ملك غيره بغير إذنه فتلف فيها إنسان  فيجب ضمانه على عاقلة حافرها والكفارة في مال الحافر ،وإن تلف بها غير الآدمي وجب ضمانه في مال الحافر."

(ج:3، ص:1334، کتاب الحدود، باب جرح العجماء ۔۔۔ الخ، ط:دار احیاء الکتب العربیۃ)

البحر الرائق ميں ہے:

"قال - رحمه الله -: (ولو بهيمة فضمانها في ماله) أي لو كان الهالك في البئر أو بسقوط الجرصن بهيمة يكون ضمانها في ماله؛ لأن العاقلة لا تتحمل ضمان المال، وإبقاء الميزاب واتخاذ الطين في الطريق بمنزلة إلقاء الحجر والخشبة؛ لأن كل واحد من ذلك مسبب بطريق من التعدي بخلاف ما إذا كان في ملكه لعدم التعدي وبخلاف ما إذا كنس الطريق فعطب بموضع كنسه إنسان حيث لم يضمن؛ لأنه ليس بمتعد فيه؛ لأنه لم يحدث فيه شيئا، وإنما قصد إماطة الأذى عن الطريق."

(ج:8، ص:399، کتاب الدیات، باب مایحدث الرجل فی الطریق، ط:دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں  ہے:

"(و من حفر بالوعةً في طريق بأمر السلطان أو في ملكه أو وضع خشبة فيها) أي الطريق (أو قنطرة بلا إذن الإمام) وكذا كل ما فعل في طريق العامة (فتعمد رجل المرور عليها لم يضمن) لأن الإضافة للمباشر أولى من المتسبب، وبهذا تبين أن المتسبب إنما يضمن في حفر البئر ووضع الحجر إذا لم يتعمد الواقع المرور، كذا في المجتبى.

(قوله: أو في ملكه) وكذا إذا حفر في فناء له فيه حق التصرف بأن لم يكن للعامة ولا مشتركا لأهل سكة غير نافذة ملتقى ... إلى قوله: (قوله لم يضمن)؛ لأنه غير متعد فيه؛ لأنه يملك الارتفاق بهذا الموضع نزولًا و ربطًا للدابة و ضربًا للفسطاط من غير شرط السلامة؛ لأنه ليس فيه إبطال حق المرور على الناس، فكان له حق الارتفاق من حيث الحفر للطبخ أو الاستقاء فلايكون متعديًا، بزازية."

(ج:6، ص:597، کتاب الدیات، باب مایحدثہ الرجل فی الطریق وغیرہ، ط:سعید)

درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

"(وإما قتل بالسبب) أي بكونه سببا للقتل (كإتلافه بحفر البئر أو وضع الحجر في غير ملكه) قيد للحفر والوضع (أو) وضع (خشبة على قارعة الطريق ونحوه) مما هو سبب للإتلاف."

(ج:2، ص:91، کتاب الجنایات، باب مایوجب القود و ما لایوجبہ، ط:دار احیاء الکتب العربیہ)

المبسوط للشیبانی میں  ہے:

"و إذا احتفر الرجل نهرًا في أرضه فلا ضمان عليه فيمن عطب به و كذلك إن جعل على النهر جسرًا أو قنطرةً في أرضه فعطب بذلك إنسان فلا ضمان عليه فيه و كذلك القناة و ما أشبه ذلك وإذا احتفر ذلك في غير ملكه فهو بمنزلة البئر يضمن ما عطب به."

(ج:4، ص:588، کتاب الدیات، باب النھر، ط:ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100587

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں