بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خنزیر کو نجس العین کہنے کی وجہ


سوال

خنزیر کو نجس العین کیوں کہتے ہیں، یعنی نجس العین ہونے کی کیا علت ہے؟

جواب

خنزیر کو نجس العین اس لیے کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خنزیر کو نجس العین قرار دیا ہے۔

چنانچہ قرآن پاک میں ہے:

{’قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمه الا ان یکون میتةً اودماً مسفوحاً اولحم خنزیر فانه رجس} [الانعام : ۱۴۵]

اس آیت میں "ہ" ضمیر خنزیر کی طرف لوٹ رہی ہے، عربی قواعد کے اعتبار سے یہی راجح ہے، یعنی وہ (خنزیر) نجس ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ، اس کا گوشت ہو یا جسم کے دیگر حصے، سب کا مجموعہ خنزیر ہے، اور یہ مجموعہ "ہ" کا مرجع ہے۔

 باقی اس آیت میں خنزیر کے گوشت کے حرام ہونے کا ذکر اس لیے ہے کہ سیاق سباق میں مشرکینِ عرب کی طرف سے خود ساختہ حرام اور حلال کیے ہوئے جانوروں اور ان کے گوشت کے استعمال کا ذکر چل رہاہے، اس ضمن میں بتادیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے چوپایوں میں سے تو مذکورہ چیزوں کے کھانے کو حرام کیا ہے، اس کے علاوہ تو اللہ تعالیٰ نے آٹھ چوپایوں میں سے کسی کے گوشت کو حرام نہیں کیا، چوں کہ جانور میں گوشت ہی کھایا جاتاہے، اور اسی کی حلت و حرمت کی بات چل رہی ہے تو خنزیر کے بھی گوشت کا ذکر کردیا گیا۔

اور اگر ظاہرِ آیت سے کوئی یہ سمجھے کہ یہاں خنزیر کے گوشت کو نجس کہا گیا ہے، تو بھی اہلِ علم فرماتے ہیں کہ سیاقِ آیت کی روشنی میں جانور کی اصل منفعت گوشت ہے تو اس کی نجاست کے ساتھ ساتھ جسم کے باقی حصے کی نجاست بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگئی۔ 

خنزیر کے نجس العین ہونے کی اصل وجہ تو یہ ہے  کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نجس اور حرام قرار دے دیا ہے۔ اس لیے ہم ان کے حکم کے پابند ہیں، یعنی نصِ قطعی سے اس کا حرام ہونا اور نجس ہونا ثابت ہے، اس لیے یہ نجس العین ہے۔

باقی  اطباء اور ڈاکٹروں نے بھی خنزیر  کےسینکڑوں  نقصانات بیان کیے ہیں، اور اخلاقی تقصان یہ ہے کہ اس سے قوتِ بہیمیہ میں اضافہ ہوتا ہے، جس  کا مشاہدہ آپ دن رات مغربی ممالک میں کر سکتے ہیں۔

تفسير الألوسي = روح المعاني (4/ 287):

"أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ أي اللحم- كما قيل-؛ لأنه المحدث عنه، أو الخنزير؛ لأنه الأقرب ذكراً. وذكر اللحم؛ لأنه أعظم ما ينتفع به منه، فإذا حرم فغيره بطريق الأولى، وقيل- وهو خلاف الظاهر-: الضمير لكل من الميتة والدم ولحم الخنزير على معنى، فإن المذكور رِجْسٌ أي قدر أو خبيث مخبث". 

محدثین نے لکھا ہے کہ کسی نبی کے زمانہ میں خنزیر حلال نہیں تھا، حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی شریعت کی طرف جو اس کی حلت منسوب کی جاتی ہے بالکل غلط ہے، ان کی شریعت میں بھی خنزیر حرام تھا، حدیث میں آتا ہے کہ آخری زمانہ میں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے تو خنزیر کو قتل کریں گے، اس کے تحت علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ ان کی شریعت میں خنزیر حرام تھا اور اس میں ان عیسائیوں کی بھی تکذیب ہے جو خنزیر کی حلت کو اپنی شریعت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (12/ 35):

"ومما يستفاد من الحديث ما فيه قاله ابن بطال: دليل على أن الخنزير حرام في شريعة عيسى عليه الصلاة والسلام، وقتله له تكذيب للنصارى أنه حلال في شريعتهم".

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200780

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں