بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رجب 1446ھ 19 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

خنزیر کے اجزاء والی دوا کا حکم


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ ایک دوائی ہے جو بچوں کے ہاضمے کےلیے ضروری ہے،لیکن اس کے اندر (pork) یعنی سور کے کچھ (enzymes) موجود ہیں،ہم 2012 سے دوسری دوائی کی تفتیش میں لگے ہوئے ہیں،لیکن کوئی دوائی ہمیں نہیں ملی ہے،بہت سارے بچے اس دوائی کے بغیرمررہے ہیں،اگر یہ دوائی نہ دی گئی تو بچے بہت تکلیف میں آجائیں گےاور مرجائیں گے،براہ کرم ہماری شرعی راہ نمائی فرمائیں کہ اس صورتِ حال میں یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی حرام چیز کو بطورِ دوا استعمال کرنا بھی حرام ہے، الا یہ کہ بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو اور مسلمان  ماہر دین دار طبیب یہ کہہ دے کہ   اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ غالب گمان ہو جائے کہ  شفا حرام چیز میں ہی منحصر ہے، اور کوئی متبادل موجود نہیں ہےتو مجبوراً بطورِ دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے ورنہ نہیں۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً اس بیماری کے لیےکوئی متبادل حلال دوا موجود  نہیں ہےاور نہ تلاش کرنے کے باوجوداس سے متعلق کوئی حلال اجزاء والی دوائی  مل سکی ہے  تو اس حرام اجزاء پر مشتمل دوائی کوبطورِ علاج  استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔اور اگراس بیماری سے متعلق کوئی متبادل حلال دوائی مل جائے تو پھر اس دوا کا استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"اختلف في التداوي بالمحرم، وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان، وعليه الفتوى.

مطلب في التداوي بالمحرم (قوله اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.

أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لا يحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل"

(کتاب الطھارۃ،باب المیاہ،ج:1،ص:210،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں